سرینگر//(ویب ڈیسک)
پاکستان کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے بھارت نے کہا کہ جی۲۰؍ اجلاس پورے ملک میں منعقد کیے جا رہے ہیں اور اس لیے جموں و کشمیر اور لداخ میں اجلاسوں کا انعقاد کیا جارہا ہے جو کہ ایک فطری عمل ہے کیونکہ یہ بھی بھارت کے ناقابل تقسیم حصے ہیں۔
پاکستان نے حال ہی میں سرینگر اور کشمیر کے کچھ حصوں میں جی۲۰؍اجلاس کی میزبانی کے بھارتی کے فیصلے کو ایک غیر ذمہ دارانہ اقدام قرار دیا تھا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے جمعرات کو ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ جی ۲۰ کا اجلاس بھارت کے تمام حصوں میں ہو رہے ہیں اور یہ ہمارا فطری ردعمل ہے۔
واضح رہے کہ بھارت نے ۲۲سے ۲۴ مئی تک ہونے والے جی ۲۰ ٹورازم ورکنگ گروپ کے اجلاس کے لیے سرینگر کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ باگچی سے سوال کیا گیا کہ بھارت میں منعقد ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع اور خارجہ کی میٹنگ میں کیا چین اور پاکستان شرکت کریں گے تو انھوں نے کہا کہ ہم سب کو دعوت نامے بھیجتے ہیں اور ہم ہر ایک کی شرکت کی توقع بھی کر رہے ہیں۔
وہیں جموں کشمیر انتظامیہ آئندہ جی ۲۰؍اجلاس کے لیے تمام ضروری انتظامات کر رہی ہے، جو اس سال مئی میں ہوگی۔ ایسے میں اجلاس کو سیاحت کے نقطہ نظر سے بہت اہم سمجھا جا رہا ہے اور محکمہ سیاحت اس سلسلے میں مختلف اقدامات کر رہا ہے۔ تشہیری مہم کے ساتھ ساتھ مختلف سیاحتی مقامات کو پرکشش بنایا جا رہا ہے۔
جموں کشمیر کے ڈائریکٹر ٹورازم فضل الحسیب کے مطابق، ایسے اقدامات سے کشمیر کو بہتر طور پر فروغ دینے کی کوششیں کی جا رہی ہے، کیونکہ یہ میٹنگ سیاحت کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے بہت اہم ہے۔
الحسیب نے کہا’’یہاں کے اہم سیاحتی مقامات پر سہولیات کو مزید بہتر بنایا جا رہا ہے اور انہیں مزید پرکشش بنانے کے لیے کافی کام کیا گیا ہے۔ اسی سلسلے کے تحت جموں و کشمیر میں سیاحت کے شعبے کو ترقی دینے کیلئے۷۵ نئے مقامات کو شامل کیا جا رہا ہے۔ سیاحوں کے لیے ان نئے مقامات تک رسائی کے لیے سیاحتی نقشہ اور تمام ممکنہ بنیادی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں‘‘۔
واضح رہے کہ گزشتہ جمعہ کو بھارت نے اپنے جی ۲۰ کیلنڈر کی تجدید کرتے ہوئے کہا کہ سیاحت پر ورکنگ گروپ کی میٹنگ۲۲ سے۲۴مئی تک کشمیر میں منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بھارت اسے ایک موقع کے طور پر استعمال کرنا چاہ رہا ہے تاکہ دنیا کو یہ بتایا اور دکھایا جاسکے کہ وادی میں حالات معمول پر آگئے ہیں اور خطے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پاکستان کے دعوؤں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔