مسجد روزہ داروں سے… نمازیوں سے بھری پڑی تھی ۔ بھکاریوں کی بھی اچھی خاصی تعداد مسجد کے احاطے میں موجود تھی ۔نماز شروع ہونے سے پہلے امام صاحب نے اعلان کیا کہ باہر موجود سائلوں کی دل کھول کر امداد کی جائے … مدد کی جائے ۔امام صاحب نے اس اپیل کے ساتھ ماہ رمضان میںغریبوں او ر مسکینوں کی مالی امداد کرنے کی فضیلیت بھی بیان کی ۔ نماز مکمل ہو ئی تو لوگ مسجد سے باہر آنا شروع ہوگئے ‘ جہاں موجود بھکاری ہاتھ اٹھا اٹھا کر ‘دعائیں دے رہے تھے ‘بھیک مانگ رہے تھے … کوئی اپنی بیٹی کی شادی کیلئے بھیک مانگ رہا تھا تو … تو کوئی اپنے بھوکے بچوں کو کھانا کھلانے کیلئے … کسی کو اپنے کسی سگے کی بیماری کا اعلاج کرانا تھا تو …تو کوئی بس یونہی بھیک مانگ رہا تھا … عادت سے ۔یوں تو مسجد میں بھکاریوں کا آنا جانالگا رہتا ہے … سال بھر لگا رہتا ہے … لیکن رمضان میں ان کی تعداد بڑھ جاتی ہے … نمازیوں کی طرح‘ جو سال بھر مسجد سے دور رہتے ہیں ‘ لیکن رمضان شروع ہونے کے ساتھ ہی وہ مسجد میں اپنا ڈیرہ ڈال دیتے ہیں ۔ہم میں اور بھکاریوں میں ایک ہی فرق ہے کہ بھکاری ماہ صیام کی اہمیت ‘ اس کی افادیت کو سمجھ گئے ہیں … یہ سمجھ گئے ہیں کہ اس ماہ میں بھیک مانگنا منافع بخش ہے ‘ فائدے مند ہے ‘ یہ کسی بھی طرح گھاٹے کا سودا نہیں ہے اور … اور اس لئے نہیں ہے کہ لوگ اپنے بند پڑے دل کے دروازوں کو تھوڑا کھلا چھوڑ دیتے ہیں …اور رہی ہماری بات تو ہم ان بھکاریوں کے برعکس اس ماہ میں بھی بھکاری بننے کیلئے تیار نہیں ہیں … ہاتھ پھیلانے کیلئے تیار نہیں ‘رحمتوں‘برکتوں اور مغفرت کی بھیک مانگنے کیلئے تیار نہیں … اپنی جھولی پھیلانے کیلئے تیار نہیں ہیں … یہ جاننے کے باوجود بھی کہ اس وقت … اس ماہ میں اللہ میاں کے رحمتوں‘برکتوں اور مغفرت کے دروازے کھلے ہیں …اور … اور پورے کھلے ہیں … دیر اگر ہے تو ہماری ہے … ان رحمتوں اور برکتوں کو لوٹنے کی دیر ہے … اللہ کے دربار میں بھکاری بننے کی دیر ہے ۔ ہے نا؟