کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل(سی اے جی ) نے اپنے حالیہ رپورٹ میں جموں وکشمیر کے بعض انتظامی شعبوں کے حوالہ سے جو خاکہ پیش کیا ہے وہ نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ متعلقہ انتظامی اکائیوں کی ناقص کارکردگی ، نااہلیت اور غیر ذمہ دارانہ طرزعمل کا عکاس ہے۔
حکومتی سطح پر مسلسل دعویٰ کئے جارہے ہیں کہ جموںوکشمیر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے اور ہر گذرتے دن کیساتھ ترقیاتی اور فلاحی شعبوں میں نہ صرف نئے سنگ میل قائم کئے جارہے ہیں بلکہ بحیثیت مجموعی عوام کو بھی راحت پہنچ رہی ہے۔ اس حوالہ سے حالیہ چند برسوں میں جل شکتی کو لے کر بہت کچھ کہاگیا، اعلان کیاگیا کہ جموں وکشمیرکے آخری گائوں تک پانی کی بہمرسانی کا ہدف حاصل کیاجائیگا۔ ہر تعلیمی ادارے ، پنچایتی اکائیوں وغیرہ کو نل کنکشن فراہم کئے جائینگے لیکن خود محکمہ جل شکتی جسے حالیہ چند برس قبل تک محکمہ پی ایچ ای یا واٹر ورکس کے نام سے شناخت تھی ان بلند بانگ دعوئوں کے برعکس غیر فعال نظرآرہاہے۔
سی اے جی نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں جل شکتی کے حوالہ سے جو تصویر پیش کی ہے اس کے مطا بق کشمیرمیں ۲۱۶ اور جموں میں ۱۱۹؍ کام مکمل نہیں کئے۔ سی اے جی نے میکنکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کو بھی اس کی ناقص کارکردگی کے تعلق سے آڑے ہاتھوں لے لیا ہے۔ ان کاموں کی تکمیل کیلئے ۱۵۱۸؍ کروڑ روپے کے فنڈز واگذار کئے گئے لیکن کاموں کو پایہ تکمیل تک نہیںپہنچایا گیا۔ سی اے جی کی رپورٹ میں یہ سنسنی خیز انکشاف بھی کیاگیا ہے کہ جموں وکشمیرمیں مختص بجٹ کا ۲۰؍ فیصد حصہ کے برابر رقم بچت میں لائی گئی جو اس امر کوواضح کررہا ہے کہ جموںوکشمیرمیں ترقیاتی اور فلاحی شعبوں سے وابستہ آفیسران اور منتظمین کی اتنی اور اس قدر صلاحیت نہیں کہ وہ کاموں کو اپنے مقررہ وقت کے دوران پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔
سی اے جی نے جن محکموں کو خاص طور سے نااہلیت یا مایوس کن کارکردگی کے حوالہ سے نشاندہی کی ہے ان میں جل شکتی ، اری گیشن اینڈ فلڈ کنٹرول، میکنیکل انجینئرنگ کشمیراور جموں خاص طور سے قابل ذکر ہے جبکہ حکومت کو یہ کہکر تنقید کا نشانہ بنایاہے کہ حالیہ کچھ برسوں کے دوران جن پبلک انڈر ٹیکنگ اداروں کوقرضہ جات فراہم کئے گئے ان اداروں سے رقومات کی واپسی کیلئے کوئی مثبت کردار نظرنہیں آرہاہے۔
یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ جب ملک کے اس بڑے محتسب ادارے نے جموںوکشمیر کے محکموں کی ناقص اور مایوس کارکردگی کی نشاندہی کی ہے، بلکہ یہ ادارہ اپنے قیام سے لے کربرابر آج تک اپنے اس کردار کو اداکرتا آرہا ہے۔ لیکن اس ساری مدت کے دوران جموںوکشمیر میں برسراقتدار ایک بھی حکومت اور اس کی زیر سرپرستی انتظامیہ نے ایک بار بھی سی اے جی کی جاری رپورٹ کو نہ چیلنج کیا اور نہ ہی اپنی مایوس کن کارکردگی پر کوئی وضاحت دی۔ اس طرح ہر سال سی اے جی مایوس کن کارکردگی کی نشاندہی کرتے چلاتا رہا اور جموں وکشمیر انتظامیہ خاموش رہ کر یہ تاثر دیتی رہی کہ ہوا ہی کچھ نہیں تو وضاحت یا جواب کس بات کا ۔
یہ دعویٰ نہیں بلکہ زمینی حقیقت ہے کہ کشمیر ہو یا جموں پانی کے وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن پانی کے ان وسائل کو بروئے کار لانے کی انتظامی صلاحیت کا گہرا فقدان ہے جو قابو میںنہیں آرہاہے۔ ہر گھنٹے لاکھوں لیٹر پانی ضائع ہوکر ندی نالوں اور سڑکوں کے اوپر سے بہہ رہا لیکن اسی پانی کو اگر TAPکرلیاجاتا تو ہزاروں کنبے پانی کی سہولیات سے مستفید ہوجاتے۔ خواتین کو گھروں سے دور کئی کلومیٹر کی لمبی مسافت اور تکالیف سے نجات مل جاتی لیکن زمینی سطح پر پانی وافر مقدارمیں دستیاب ہونے اور فنڈز کی فراہمی کے باوجود پانی کے ان ذرائع کو ٹیپ کرنے کی سمت میں کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں ہورہاہے۔
جل شکتی محکمہ نے گذشتہ چند برسوں کے دوران پانی کی گھر گھر فراہمی اور دستیابی کے تعلق سے جتنا شور مچایا اور بلند بانگ دعویٰ کرکے وابستہ کمشنروں؍سیکریٹریوں نے جتنے فوٹو سیشن منعقد کرائے وہ سارے کے سارے سی اے جی کی رپورٹ کے نتیجہ میں دھڑام سے زمین بوس ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جموں ہویا کشمیردور دراز تودور کی بات نزدیکی مضافات، رہائشی کالونیوں کی اچھی خاصی تعدادپانی کی سہولیات سے محروم ہے، اس تعلق سے جو تصویر یں آئے روز سامنے آرہی ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ جل شکتی جو کچھ کہتا ہے اور دعویٰ کررہا ہے وہ سچ نہیں بلکہ اُن سب کا تعلق لوگوں کی توجہ ہٹاکرانہیں گمراہ کرنے سے ہے۔
سی اے جی نے جل شکتی کے حوالہ سے جن سکیموں اور پروجیکٹوں کے التوا کی نشاندہی کی ہے ان کی مجموعی تعداد ۳۳۵ ہے ، اپنی اس ناقص اور مایوس کن کارکردگی کا تھوڑا سا احساس کرکے متعلقہ محکمہ التواء میںپڑے ان پروجیکٹوں پر کام کی رفتار کا از سرنو تعین کرکے انہیں اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے کمر بستہ ہوکر ٹار گیٹیڈ آبادی کو پانی کی سہولیت فراہم کرسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی اس بات کی طرف بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ سی اے جی نے مختص بجٹ کا بیس فیصد حصہ کے برابر رقومات کو لیپس(بچت) کرنے کی وجوہات اور اس کے ذمہ داروں کی نشاندہی کی سمت میں اقدامات اُٹھائے جانے چاہئے۔ مرکزی وزیرخزانہ نے رواں مالی سال کے لئے بجٹ تخمینہ جات پیش کرنے کے دوران اپنی تقریر میں انکشاف کیا کہ گذرے مالی سال کے دوران مختص رقومات میں تقریباً ۱۳؍ ہزار کروڑ روپے بچت میں لائے گئے۔ یہ بچت بجلی کی خریداری اور وزیراعظم ترقیاتی سکیموں بشمول مرکزی سرکار کی معاونت والی اسکیموں کیلئے مختص بجٹ رقومات کے زمرے سے تعلق رکھتی ہیں۔
یہ ایک قابل توجہ مگر سنجیدہ غور طلب مسئلہ ہے کہ کیوں جموں وکشمیر ایک طرف سے مالی امداد کی فراہمی کا مسلسل مطالبہ کررہاہے تو جب فنڈز دستیاب رکھے جارہے ہیں تو ان کا بہتر اور مکمل صلاحیت کے ساتھ تصرفہ ناممکن بنایا جاتاہے۔ کیا یہ انتظامیہ کے متعلقہ شعبوں کی نااہلیت اور مطلوبہ صلاحیت کا فقدان ہے یا وقت پر لین دین کے حوالہ سے معاملات طے نہ پانے کا نتیجہ !