الریاض//
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کل منگل کو کہا ہے کہ شام کے ساتھ رابطے میں اضافہ 10 سال سے زیادہ تنہائی کے بعد عرب لیگ میں دمشق کی واپسی کی راہ ہموار کر سکتا ہے لیکن فی الحال ایسے قدم پر بات کرنا قبل از وقت ہے۔ سعودی وزیر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ عرب دنیا میں یہ اتفاق رائے بڑھ رہا ہے کہ شام کو تنہا کرنا کام سود مند نہیں۔ دمشق کے ساتھ بات چیت ضروری ہے، خاص طور پر وہاں کی انسانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے دمشق کی عرب لیگ میں واپسی ہوسکتی ہے۔
ریاض نے چھ فروری کو آنے والے تباہ کن زلزلے سے امدادی سرگرمیوں کے حصے کے طور پر شام کے متاثرہ علاقوں میں امداد سے لدے طیارے بھیجے تھے۔
شہزادہ فیصل بن فرحان نے لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "ان خدشات کو دور کرنے کے لیے بات چیت ضروری ہے۔ یہ بالآخر شام کی عرب لیگ میں واپسی کا باعث بن سکتا ہے، لیکن فی الحال میرے خیال میں اس معاملے پر بات کرنا قبل از وقت ہے۔” .
شام کو 2011ء میں اپنے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مظاہروں کے دوران خونریز کریک ڈاؤن کے بعد باقی عرب دنیا سے کافی حد تک الگ تھلگ کر دیا گیا تھا۔ .
عرب لیگ نے 2011ء میں شام کی رکنیت معطل کر دی تھی اور کئی عرب ممالک نے دمشق سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا تھا۔
سعودی عرب اس سال عرب سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا۔ اس سوال کے جواب میں کہ آیا شام کو سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جائے گی، شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ میرے خیال میں اس بارے میں بات کرنا قبل از وقت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عرب دنیا میں اتفاق رائے ہےاور یہ کہ جمود جاری نہیں رہ سکتا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اس پر قابو پانے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا”۔شہزادہ فیصل بن فرحان نے گذشتہ فروری میں میونخ سکیورٹی کانفرنس میں ایک ڈائیلاگ سیشن کے دوران عندیہ دیا تھا کہ عرب دنیا میں اس بات پر اتفاق رائے پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے کہ شام کو تنہا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور دمشق کے ساتھ بات چیت "وقت” کی ضرورت ہے۔ تاکہ کم از کم وقت میں شام میں جاری انسانی مسائل کو حل کیا جا سکے۔ ان مسائل میں پناہ گزینوں کی واپسی بھی شامل ہے۔