سرینگر//
وادی کشمیر میں جہاں لوگوں کو کھانے کیلئے چکن فراہم کرنے کی غرض سے پولٹری فارم قائم کئے جاتے ہیں وہیں سرینگر سے تعلق رکھنے والے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نے ایک ایسے پولٹری فارم کا قیام وجود میں لایا ہے جہاں لوگ چکن کھانے کیلئے بلکہ گھروں کی زینت و زیبائش بڑھانے کے شوق کو پورا کرنے کیلئے غیر ملکی نسل کے مرغوں کے جوڑے خریدتے ہیں۔
سرینگر کے الٰہی باغ سے تعلق رکھنے والے راہل مشتاق نے سال۲۰۲۱میں کشمیر یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد باہر جاکر کسی کمپنی میں نوکری کرنے کے بجائے غیر ملکی نسل کے مرغوں کا پولٹری فارم قائم کیا ہے جو نہ صرف ان کے بچپن کے شوق پورا کرنے کا ایک ذریعہ ہے بلکہ ان کے روزگار کا بھی ایک موثر وسیلہ ہے ۔
مشتاق نے یو این آئی کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران کہا’’جانوروں کو پالنے پوسنے کا شوق بچپن سے ہی تھا اور اب یہی شوق میرا کاروبار اور روزی روٹی کا ذریعہ بھی بن گیا‘‘۔ان کا کہنا تھا’’کورونا لاک ڈاؤن کے دوران جب سب کچھ ٹھپ تھا تو میں نے ولایت سے مرغوں کے کچھ جوڑے لائے اور آن لائن ان کی نمائش کی تو ایک اچھا رسپانس ملنے لگا‘‘۔
نوجوان نے کہا کہ ترکی جہاں مختلف ملکوں جیسے امریکہ،نیدر لینڈ‘ آئر لینڈ وغیر کے مرغوں کے نسل کے انڈے دستیاب ہوتے ہیں میں وہاں سے انڈے اور مرغے بھی لاتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ میرے پاس اس وقت پچیس سے تیس قسموں کی نسل کے مرغوں کے جوڑے موجود ہیں جن کی قیمتیں بھی الگ الگ ہیں۔ان کا کہنا تھا’’میں نے اس کاروبار میں دس سے پندرہ لاکھ روپیوں کی سرمایہ کاری کی اور میرا یہ کاروبار فروغ پا رہا ہے ‘‘۔
مشتاق نے کہا کہ امریکن نسل کے مرغے کے ایک جوڑے کی قیمت پچاس سے سٹھ ہزار رویے ہے ۔انہوں نے کہا’’لوگ اپنا شوق پورا کرنے کیلئے آتے میرے فارم پر آتے ہیں اور اپنی پسند کے جوڑے خریدتے ہیں‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت میرے پاس مختلف قسموں کے قریب دو سو جوڑے موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ جس جوڑے کی قیمت دس ہزار روپے ہے اس کے انڈے کی قیمت دو سو رویے ہے ۔
نوجوان کارو باری نے کہا کہ مجھے مختلف ریاستوں سے آن لائن آڈرز بھی ملتے ہیں جن کو میں ان کی پسند کے جوڑے بھیجتا ہوں۔انہوں نے کہا’’یہ ایک اچھا کاروبار ہے جتنی محنت کی جائے گی اتنا یہ بھی ترقی کرسکتا ہے ‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ لوگوں میں اس کے متعلق جس قدر جانکاری پھیل رہی ہے اسی قدر یہ کاروبار بھی ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے ۔
مشتاق نے وادی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش میں بیٹھنے سے بہتر ہے کہ اپنا کوئی کاروبار شروع کیا جائے ۔انہوں نے کہا’’ایسا کرنے سے ہم نہ صرف اپنا روزگار کما سکتے ہیں بلکہ دوسروں کی روزی روٹی کی سبیل بھی کرسکتے ہیں‘‘۔
نوجوان کار و باری کا کہنا تھا کہ محنت کرنے سے کسی بھی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے آپ کو کسی کمپنی میں نوکری کرنے تک محدود رکھنا صحیح نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں نے کے اے ایس کیلئے پری لمنری امتحان بھی کوالیفائی کیا لیکن اپنے شوق کو ہی اپنے کاروبار کے بطور اختیار کیا۔