گھریلو صارفین کیلئے رسوئی گیس سلنڈر کی قیمت میں یک لخت ۵۰؍ روپے فی سلنڈر اور کمرشل سلنڈر گیس کی قیمت میں ساڑھے تین سو روپے کا یک لخت اضافہ مہنگائی کی مار کا ایسا چہرہ ہے جو غالباً پہلی بار نظرآرہاہے۔ اگر چہ مہنگائی کے حوالہ سے متواتر اور بتدریج اضافہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے لیکن اس اضافہ کے منفی اثرات بوجھ کی صورت میں اوسط شہری پرہی مرتب ہوتے رہیں گے۔
کشمیر کا کم وبیش ہر بازار ناجائز منافع خوروں، لٹیروں اور بازاری مافیاز کے رحم وکرم پر ہی ہے لوگ مہنگائی کی مار کے معمول کی زندگی پر مرتب ہوتے جارہے منفی اثرات کی چوٹ سہتے سہتے چیخ اور چلارہے ہیں لیکن انہیں کسی حد تک ریلیف دینے کیلئے نہ صوبائی انتظامیہ سنجیدہ اور فعال ہے اور نہ ہی بازاروں سے وابستہ مافیاز ٹس سے مس ہوتے نظرآرہے ہیں۔
ہر گذرتے دن کے ساتھ ان مافیاز کی مارکیٹ پر گرفت مضبوط سے مستحکم ہوتی جارہی ہے جبکہ اُسی رفتار سے لٹیرانہ طرزعمل کے ان کے طور طریقے اور مذموم حربے بھی نت نئی صورت میں قہر بن کر عوام پر نازل اور مسلط ہورہے ہیں۔لوگ بے بسی کی حالت میں یہ سب کچھ برداشت کررہے ہیں کیونکہ انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ کشمیرمیں مافیاز اور لٹیروں کے خلاف مزاحمت کی کوئی روایت نہیں اور اگر رہی بھی ہے کسی دورمیں تو وقت کی ساحری نے لوگوں کی اُس مزاحمت کو علیحدگی پسندگی، ملک دُشمنی، سماج دُشمنی اور ضرورت پڑنے پر پاکستان نوازی کا لیبل چسپاں کرکے مختلف طریقوں سے نہ صرف دبانے اور کچلنے کے راستے ہموار کئے بلکہ بارود کے استعمال کا بھی سہارا لیاگیا۔
کشمیر کی تاریخ اس مخصوص اپروچ کے حوالہ سے، جب جب بھی لوگ مزاحمت پر اُتر آئے، کئی واقعات کی گواہ ہے خاص کر جب ایک دور میں چاول پر سبسڈی میںکمی کرکے فی نفر ایک روپیہ کا اضافہ کرنے کا سرکاری حکمنامہ اجراء ہوا، لوگ اس اضافہ کے خلاف سڑکوں پر اُتر آئے لیکن وقت کے قاضیوں نے اُس مزاحمت کو کچلنے کیلئے بارود برسایا۔ اگر چہ تب سے اب تک بہت سارے سال گذر گئے لیکن لوگوں کی کسی بھی مزاحمتی تحریک، حصول انصاف کیلئے بلند کی جارہی آواز کو کچلنے اور دبانے کیلئے اسی مخصوص راستے اور طریقہ کار کو بروئے کار لایاجاتا رہا اور اس طرح اس روایت کو پروان چڑھاکر پالیسی کا حصہ بنایاگیا۔
چونکہ کشمیرکے حوالہ سے دستیاب اور استعمال گولی بارود کا کوئی حساب وکتاب یا محاسبہ نہیں لہٰذا جان کی امان پائوں کے مصداق لوگوں کے اندر مزاحمت کا مزاج دم توڑتا رہا۔ مثالیں درجنوں میں نہیں سینکڑوں میں موجود ہیں۔ اوسط ساگ (کشمیری) کی فی کلو قیمت ۳۰؍روپے سے اچانک ۳؍سو روپے کردیاگیا، ادھر اُدھر سے آواز بلند تو ہوئی لیکن لوگوں کی طرف سے کوئی اجتماعی احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔حوصلہ پاکر کشمیرکے ملیاروں،سبزی اور گھاس فروشوں نے اوسطاًہر سبزی کی قیمت میں کم سے کم ڈیڑھ سو سے دو سو فیصد تک اضافہ کردیا۔ لیکن ان سبزی فروشوں اور ملیاروں سے کوئی پوچھنے والا نہیں اور نہ ہی صوبائی اور ضلعی انتظامیہ میں اتنی جرأت ہے کہ وہ ان کاروباریوں کی انجمنوں کے خودساختہ عہدیداروں سے جواب طلب کرکے ان کا محاسبہ کرسکے۔
کشمیر اور جموں یوٹی کا حصہ ہیں، قانون اور قوائد تقریباً ایک ہیں، لیکن عمل آوری کے تعلق سے یہ آپس میں اتنے ہی دوری پر واقع ہیں جتنی کہ سرینگر اور جموں کے درمیان فاصلہ !جموں کے بازاروں میں اوسط سبزی کی فی کلو قیمت ۲۰۔۴۰؍روپے کے درمیان ہے لیکن دن ڈھلتے ہی بچی کچھی سبزی تقریباً ۵۰ فیصد کم داموں پر فروخت کی جاتی ہے۔ لیکن یہی اوسط سبزی کشمیرکے بازاروں میں ۷۰۔ ۹۰ روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کی جارہی ہے۔
اصل میں بُنیادی فرق کاروباریوں اور تاجروں اور دکانداروںکے اندازفکر اور اپروچ میںہے ۔ جموں کا کاروباری اور دکاندار بھی منافع خوری کا مرتکب ہورہاہے لیکن اُس کی یہ منافع خوری کشمیرکے منافع خور سے حد درجہ کم تر ہے۔ وہ لوگوں کو قیمتوں میںاُتار چڑھائو کا فائدہ فوری طور سے پہنچانے کا قائل ہی نہیں بلکہ اپنا اخلاقی فرض سمجھ رہا ہے جبکہ کشمیر کا کاروباری اور دکاندار زیادہ سے زیادہ منافع خوری کا راستہ اپنا اخلاقی فرض لوٹ اور استحصال سے عبارت تصور کررہاہے۔
اس تعلق سے کشمیر میں دکاندار وں، سٹاکسٹوں ، کاروباریوں وغیرہ کی جتنی بھی انجمنیں ، بازار کمیٹیاں اور فیڈریشنیں ہیں ان سب کا متمع نظر اپنے اپنے کاروباریوں کی سرپرستی کرکے انہیں زیادہ سے زیادہ منافع کی راہ پرڈالنے اور بغیر محنت اور دیانت کے دولت حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی سے ہے، کاروباری اداروںسے وابستہ یہ تنظیمیں اوسط گاہگ کے مفادات کی ذرہ بھر بھی پروانہیں کرتی اور نہ ہی ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنارہی ہیں۔
درحقیقت کشمیرمیں حالیہ دہائیوں کے دوران جس کاروبار اور تجارت کو پروان چڑھایا جاتا رہا اُس کاروبار کو وقت وقت کے حکمرانوں اور ان کی شکمی شریک صوبائی انتظامیہ اور اس کی ماتحت ضلعی انتظامیہ کی خاموش مگر معاونتی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ وہ کون سا مال، اشیاء سودا ،ادویات، گارمنٹس، تعمیراتی میٹریل وغیرہ ہے جو دو نمبری یا غیر موثر نہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ لوگ اس حوالہ سے شاکی ہیں، آوازیں بلندکررہے ہیں لیکن اس کے باوجود دونمبری مال مارکیٹ میں دستیاب ہی نہیں بلکہ کھلے عام بھی فروخت کیاجارہاہے۔ اس تعلق سے ادویات کا حوالہ دیاجاسکتاہے ۔ چند ایک سٹاکسٹس اوردکانداروں کو چھوڑ کر کشمیر کی ہر دوائی کی دکان میںدو نمبری ادویات دستیاب ہے اور فروخت کی جارہی ہے۔ اس ضمن میں ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کا اپروچ عوامی حلقوں میں جس قدر مشکوک تصورکیاجارہاہے غالباً کسی دوسرے سرکاری ادارے کے بارے میں اس قدر شکایت نہیں۔
ادویات کے حوالہ سے بھی جموں کو کشمیرکے مقابلے میں سبقت حاصل ہے جہاں دو ا فروشوں کی اکثریت ادویات کی خریداری پر قیمتوں میں چھوٹ دے رہے ہے وہیں اس بات کی ضمانت بھی ہے کہ ان دکانوں پر دونمبری دوائی فروخت نہیں کی جارہی ہے۔اس تعلق سے اور بھی کئی ایک پہلو ہیں جو حیران کن ہیں۔
جہاں تک مختلف اشیاء بشمول پولٹری، گوشت اور دیگر مقررہ قیمتوں پر دستیابی کے سرکاری دعوئوں کا تعلق ہے تو خود صوبائی اور اس کی ماتحت ضلعی انتظامیہ قدم قدم پر یہ اعتراف کررہی ہے کہ مقررہ قیمتوں سے زائد قیمتیں وصول کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے، دکانیں سیل کی جارہی ہیں یا جرمانے وصول کئے جارہے ہیں۔ یہ سرکاری بیانات جو اعتراف کی صورت میں مارکیٹ میں دستیاب ہے خود صوبائی حکومت کی ناکامی کا بہت بڑا اشتہار ہے۔