واشنگٹن//
امریکی محکمہ خارجہ کی ٹریول ایڈوائزری کے باوجود مختلف تنظیموں سے تعلق رکھنے والی سات امریکی خواتین نے گزشتہ ہفتے کابل کا دورہ کیا ہے لیکن وہ وہاں سے انہیں مایوس لوٹنا پڑا۔
کوڈ پنک نامی خواتین کی تنظیم سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سمیت ، گروپ نے پورا ہفتہ طالبان حکام، مقامی لوگوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں سے ملاقاتوں میں گزارا ۔ انھوں نے کہا کہ وہ وہاں سے مایوس واپس آئی ہیں۔
گروپ میں شامل” کوڈ پنک” کی شریک بانی میڈیا بینجمن نے سان فرانسسکو میں اپنے گھر سے ٹیلی فون انٹرویو میں کہا کہ ان کے سفر کا اصل مقصد لڑکیوں کے اسکول کھلنے کی خوشیوں میں شریک ہونا تھا۔
لیکن افغانستان کے سفر سے دو دن قبل اس گروپ کو مطلع کردیا گیا تھا کہ طالبان نے اپنی یقین دہانیوں کے برعکس لڑکیوں کے ثانوی اسکولوں پر پابندی میں غیر متوقع توسیع کردی ہے۔
بینجمن نے کہا کہ اس کے بعد ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ کیا ہمیں اب بھی وہاں جانا چاہیے؟ اور فیصلہ کیا کہ یہ ضروری ہے کہ ہم لڑکیوں کے ساتھ اپنی حمایت کا اظہار کریں اور طالبان کو قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں ، یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔بینجمن نے کہا کہ دورے میں طالبان حکام نے گروپ کو بتایا کہ اسکول پرپابندی عارضی ہے۔
بینجمن نے کہا کہ جن خواتین سے وہ ملیں، ان کے دل بہت ٹوٹے ہوئے تھے۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ کس طرح ان کی امیدیں اور خواب چکناچور ہوئے اور وہ کس قدر مایوس ہو ئیں کہ وہ اپنے بھائیوں کی طرح تعلیم حاصل نہیں کرپائیں گی ، انہوں نے یہ بتایا کہ تعلیم ان کے لیے بہت اہم ہے۔
افغانستان کے اندر اور باہر کے اسلامی اسکالرز سمیت دنیا بھر نے اسکولوں پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے اور طالبان رہنماؤں سے لڑکیوں کے اسکول دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔