نئی دہلی///
دہلی کے جنتر منتر پر احتجاج کرنے کے ایک دن بعد، لداخ کے گروپوں نے جمعرات کو ریاست کا درجہ دینے اور مرکز کے زیر انتظام علاقے کو چھٹے شیڈول کا درجہ دینے کے اپنے مطالبات کو دہراتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر حکومت نے ان کی بات نہیں سنی تو وہ اپنے احتجاج کو تیز کریں گے۔
یہاں ایک پریس کانفرنس میں ماحولیاتی کارکن اور ماہر تعلیم سونم وانگچک نے کہا کہ لداخ میں جمہوریت کے ساتھ سمجھوتہ کیا گیا ہے اور فیصلہ سازی میں مقامی لوگوں کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
لیہہ اپیکس باڈی(ایل اے بی) اور کرگل ڈیموکریٹک الائنس(کے ڈی اے) کی جانب سے، لداخ کے دو اضلاع سے تعلق رکھنے والے سماجی، مذہبی اور سیاسی گروپوں کے اتحاد کی جانب سے بات کرتے ہوئے‘ وانگچک نے ماحولیاتی طور پر حساس علاقے کے لیے تحفظات فراہم کرنے اور فیصلہ سازی میں مقامی لوگوں کو شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
وانگچک’’ہم یونین کے زیر انتظام علاقہ بننا چاہتے تھے، لیکن ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ قانون سازیہ کے بغیر ہوگا۔ ہمارے لیے مختص بجٹ کیسے خرچ ہوتا ہے اس میں اب عوام کی شرکت نہیں رہی۔ خود مختار ہل کونسل بھی کمزور ہو گئی ہے، اور ریاست کا مسئلہ لداخ کے لوگوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے‘‘۔
کرگل سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن سجاد حسین نے کہا کہ لداخ ایک بحران سے گزر رہا ہے، اور فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
حسین نے کہا’’لداخ ایک بحران سے گزر رہا ہے… جب آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کیا گیا تھا، دو اضلاع … لیہہ اور کارگل ‘ کی خواہشات مختلف تھیں۔ جہاں کرگل میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، لیہہ میں اس کا خیرمقدم کیا گیا‘‘۔انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کو لیفٹیننٹ گورنر اور بیوروکریٹس پر چھوڑ دیا گیا ہے، جو لداخ کے لوگوں کو جوابدہ نہیں ہیں۔
حسین کاکہنا تھا’’ بے روزگاری بڑھ رہی ہے، گریجویٹ، پی ایچ ڈی ہولڈر سڑکوں پر ہیں۔ جب ہم نے علیحدہ پبلک سروس کمیشن کا مطالبہ کیا تو حکومت نے کہا کہ ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’لوگ مکمل طور پر بے اختیار ہو چکے ہیں، ہماری کوئی نمائندگی نہیں ہے… اس سے قبل جموں و کشمیر اسمبلی میں ہمارے چار ایم ایل اے تھے‘‘۔
گروپوں کا کہنا تھا کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ اپنے احتجاج میں شدت لائیں گے۔ایک جمہوری معاشرے میں احتجاج ہمارا حق ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں لداخ میں کئی احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں‘ اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو ہم احتجاج کو تیز کریں گے۔
وانگچک اور حسین دونوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس کی کارروائی سے ان کی آوازیں دبائی جارہی ہیں۔ان کاکہنا تھا’’کرگل میں اگر کوئی طالب علم احتجاج کرتا ہے تو پولیس کارروائی شروع کردی جاتی ہے۔ پچھلے سال کچھ نوجوانوں نے زمین سے متعلق ایک معاملے پر احتجاج کیا تھا۔ انہیں پولیس نے بلایا تھا‘‘۔
وانگچک نے کہا’’اختلافات کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کوئی احتساب نہیں ہے۔پورے ڈھانچے میں کوئی جمہوریت باقی نہیں ہے‘‘۔ان کاکہنا تھا’’ہمارے پاس فیصلے کرنے کے لیے منتخب نمائندے نہیں ہیں۔ جب جموں و کشمیر اسمبلی میں ہمارے چار ایم ایل اے تھے تو ہماری آواز سنی جاتی تھی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ کے لیے ایل جی کی حکمرانی میں ڈال دیا گیا ہے۔‘‘