کل دن بھر میں مضطرب رہا … ایک الجھن تھی‘ایک عجیب سی کیفیت بھی … فیصلہ نہیںکرپارہا تھا کہ بھلا جس بات کی وجہ سے میں اس الجھن کا شکار ہوں … کیا اس بات پرمیرا مضطرب ہونا ‘کوئی معنی رکھتابھی ہے یا نہیں ۔ ہوا یوں کہ میں ایک دوست سے ملنے گیا… دوست صحافی تو نہیں ہے‘ لیکن میڈیا سے ان کا ایک تعلق ہے… ایک گہرا تعلق۔ مجھ سے پہلے وہاں ایک شخص تشریف رکھے ہوئے تھے… میرے دوست نے ان سے میرا تعارف کچھ اس انداز میں کرایا…’یہ ہارون صاحب ہیں ‘ صحافی ہیں ‘ بے چارے بڑے شریف ہیں‘۔کچھ دیر بعد یہ شخص رخصت ہوا … اس کے بعد میں بھی دوست سے رخصت ہونے والا تھا کہ ایک اور سجن آں پہنچے۔ میں انہیں جانتا تھا ‘لیکن کبھی رسمی تعارف نہیں ہوا تھا … میرے اس دوست نے اس شخص بھی میرا تعارف کرایا … بالکل پہلے جیسے انداز میں۔’یہ…… ہیں ‘ بے چارے بڑے شریف ہیں‘۔خیر کچھ دیر کی گفتگو کے بعد میں رخصت ہو گیا … لیکن … لیکن دوست نے جس انداز سے میرا تعارف کرایا ‘ وہ ایک ایک لفظ مجھے چبھ رہا تھا … اس لئے نہیں کہ میرے دوست نے میرا اس انداز میں تعارف کیوں کرایا … اس نے تو بڑی نیک نیتی اور خلوص سے میرا تعارف کرایا … لیکن… لیکن نہ جانے مجھے کیا بے قرار کئے جا رہا تھا… مجھے لگتا تھا کہ اگر دوست مجھے صرف ایک صحافی کے طور پر تعارف کراتے تو… تو میں بالکل بھی اضطراب کا شکار نہیں ہوتا… لیکن اس کے ساتھ انہوں نے جو ایک اور جملہ کہہ ڈالا…’بے چارے بڑے شریف ہیں‘ یہ ایک جملہ مجھے تنگ کررہا ہے ‘ بے چین کررہا ہے ‘مجھے طعنہ دے رہا ہے…ایسا لگتا ہے کہ یہ مجھ سے کچھ کہنے کی کوشش کررہا ہے… کہہ رہا ہے‘ سرگوشی کررہا کہ … تم صحافی ہو اور شریف بھی بھلا یہ کیسے ممکن ہے ‘ یہ ممکن نہیں ہے ‘ یہ جھوٹ ہے‘ دھوکہ ہے‘ فریب ہے ‘ مکر ہے ‘بہتان ہے … کہ… کہ کشمیر کا صحافی کچھ بھی ہو سکتا ہے ‘ لیکن… لیکن شریف نہیں ہو سکتا ہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہو سکتا ہے … اور جو ایسا کہتا ہے‘ جھوٹ کہتا ہے‘ جو کسی … کسی کشمیری صحافی کو شریف سمجھ رہا ہے… اس جیسا احمق اور بے وقوف کوئی نہیں ہو سکتا ہے … اور بالکل بھی نہیںہو سکتا ہے ۔ بے چارہ دوست!… ہے نا؟