سرینگر/۳۱جنوری (ویب ڈیسک)
اقوام متحدہ کے مطابق بھارت چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اس سال کسی وقت دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔
چین کی اس ماہ کی رپورٹ کے بعد کہ۶۰ سالوں میں پہلی بار اس کی آبادی کم ہوئی ہے، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں پہلے ہی چین سے زیادہ آبادی ہے۔
ایک غیر منافع بخش تنظیم پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر‘ پونن متریجا نے کہا کہ یہ غیر متوقع نہیں ہے۔ ’’ہمیں معلوم تھا کہ ہم ۲۰۲۷ میں چین کو پیچھے چھوڑ دیں گے لیکن چین کی آبادی میں کمی کی وجہ سے ایسا تیزی سے ہوا ہے۔‘‘
دونوں ممالک کی آبادی تقریباً ۴ء۱ بلین ہے۔ لیکن ماہرین کے مطابق، چین کو پیچھے چھوڑنا صرف ایک نمبر نہیں ہے ‘ یہ ایک اہم تبدیلی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب چین کی آبادی اندازوں سے پہلے ہی کم ہونا شروع ہو گئی ہے، بھارت کی آبادی مزید تین دہائیوں تک بڑھتی رہے گی۔
لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب چین کی آبادی میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے، تقریباً نصف بھارتی باشندے ۲۵ سال سے کم عمر کے ہیں۔ یہ چیز بھارت کے لیے اقتصادی فوائد حاصل کرنے کے ایک موقع کی نمائندگی کرتی ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت کچھ اس بات پر منحصر ہوگا کہ ملک اپنی افرادی قوت، خاص طور پر کام کرنے کے قابل عمر والی بڑی آبادی کا فائدہ کیسے اٹھاتا ہے۔
یہ نوجوان ایک ایسے وقت میں ہنر اور محنت کا وسیلہ بن سکتے ہیں جب بہت سے ملکوں میں لوگ بوڑھے ہو رہے ہیں اوروہ بھارت کے لیے ممکنہ طور پر ایک بڑی ابھرتی ہوئی مارکیٹ بن سکتے ہیں جو عالمی کمپنیوں اور سرمایہ کاری کو راغب کرے گی۔
ایس وائی قریشی، ایک سابق الیکشن کمشنر ہیں، جنہوں نے ’’دی پاپولیشن متھ… اسلام، فیملی پلاننگ اینڈ پالیٹکس ان انڈیا‘‘ پر ایک کتاب تصنیف کی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ہم کھپت کے لحاظ سے ایک بڑی مارکیٹ ہیں، اور ہم تربیت یافتہ افرادی قوت کے سب سے بڑے سپلائر بھی ہو سکتے ہیں‘‘۔تاہم انہوں نے توجہ دلائی کہ ایک ہی وقت میں چیلنجز ہیں۔ مثال کے طور پر، بھارت کو اس دہائی کے اختتام سے پہلے غیر زرعی شعبوں میں ۹کروڑ ملازمتیں تشکیل دینے کی ضرورت ہوگی۔
یہ تعداد پریشان کن ہے ۔ بھارت میں پہلے ہی ۹۰ کروڑ افراد کام کرنے کی عمر میں ہیں اور یہ تعداد دہائی کے آخر تک ایک ارب کے نشان کو چھونے والی ہے۔ یہ ایک ایسے ملک میں بہت سے نوجوانوں کے لیے حالیہ برسوں میں بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح پریشانیاں پیدا کر رہی ہے۔
اب جب کہ بھارت کی معیشت کووڈ۱۹ کی وبا کے اثرات سے نکل چکی ہے، اور اب وہ دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی بڑی معیشت ہے۔ تخمینوں کے مطابق، اس کی صرف ۴۰ فیصد افرادی قوت کے پاس روزگار ہے یا وہ ملازمتوں کی تلاش میں ہے۔
کالج اسٹوڈنٹس اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ ایک انڈر گریجویٹ طالب علم انمول جین کا کہنا ہے کہ ’’زیادہ لوگ، کم ملازمتیں، اور مقابلہ زیادہ ‘ بڑی آبادی ہمارے لیے نقصان دہ ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ پوسٹ گریجویٹ کورس میں داخلے کے امتحانات جس کی وہ تیاری کر رہے ہیں، ان میں مسابقت اور بھی بڑھ جائے گی۔
لیکن ایسے افرد کو جو بھارت کے نوجوانوں کو متحرک اور مواقع کی نمائندگی کرنے والوں کے طور پر دیکھتے ہیں، ایک امید بھی موجود ہے۔ایک اور کالج کے طالب علم آران گلیا نے کہا کہ ، ’’نوجوان ذہنوں میں زیادہ خیالات ہوتے ہیں۔ انٹرپرینیورشپ ہی اس کا حل ہے،مجھ جیسے لوگوں کے پاس خیالات ہیں۔ میرے پاس سرمایہ نہیں ہے لیکن اگر نوجوان بھارت کے پاس خیالات ہیں تو ہم اپنا راستہ بنا سکتے ہیں۔
بنیادی طور پر بھارت کی کم ترقی یافتہ، غریب شمالی ریاستوں جیسے کہ اتر پردیش اور بہار کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے، جہاں تعلیم کی سطح کم ہے اور آبادی جنوبی ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس نے خواندگی کی سطح میں بہتری کے ساتھ ہی ان کی آبادی میں اضافے کی شرح کو بھی سست کر دیاہے۔
ایک بہت بڑے ووٹ بینک کی نمائندگی کرتے ہوئے وہ امید کرتی ہیں کہ حکومت اپنی نوجوان آبادی کی ضروریات پر زیادہ توجہ دے گی۔
پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر پونن متریجا نے کہا۔بھارت کے پاس اپنی نوجوانوں سے آبادی سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے محدود گنجائش ہے۔ جیسے جیسے تعلیم میں بہتری آتی ہے اور آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے، خواتین میں بچوں کی کم تعداد کی جانب رجحان میں اضافہ ہوتا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، خواتین اوسطاً دو یا دو سے کم بچے پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ لہذا، ہماری آبادی بہت تیزی سے کم ہونے والی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ چین کی طرح بھارت کی آبادی بھی جلد ہی بڑھاپے کی جانب بڑھنے والی ہے۔