قطع نظرا س بات کے کہ الیکشن کے انعقاد کیلئے عمر عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس بھیک نہیں مانگے گی، قطع نظر اس بات کے بھی کہ سید الطاف بخاری کی قیادت میں اپنی پارٹی مرکز میں حکمران جماعت بی جے پی کے ساتھ اگر ضرورت پڑی حکومت سازی سے قدم پیچھے نہیں ہٹائے گی اور اس بات سے بھی قطع نظر کہ کانگریس اور بی جے پی مسلسل دعویٰ کررہی ہیں کہ جموںوکشمیر میں ’اب کی بار ان کی سرکار‘ ہوگی، اوسط شہری الیکشن کے حوالہ سے کسی بھی دعویٰ یاپارٹیوں کی سرگرمیوں کو نہ سنجیدگی سے لے رہا ہے اور نہ ہی زیادہ دلچسپی دکھا رہا ہے۔
اس عدم دلچسپی کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ میں لاکھوں کی تعداد میں تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان روزگار نہ ملنے کی وجہ سے مایوس ہورہے ہیں وہیںبحیثیت مجموعی اوسط شہری محسوس کررہے ہیں کہ ان کے روزگار کے وسائل اور مواقع گھٹتے جارہے ہیں،مہنگائی کا دیو سروں پر سایہ فگن ہوکر سنگین ترین مسائل اور معاملات کو پیدا کرنے کا موجب بنتا جارہاہے، صحت اور سلامتی کے حوالہ سے ماحول روزبروز بگڑتا جارہاہے،ترقی کے حوالہ سے یکسانیت اور توازن کی جگہ جموں وکشمیر کے مختلف خطوں کے درمیان عدم یکسانیت اور عدم توازن تیزی کے ساتھ جگہ پاتا جارہاہے، معاشرتی سطح پر شہری اور گائوں، فرقہ بندی اور طبقہ بندی، جبکہ ریزرویشن کے نام پر سماجی اور انتظامی تانا بانا کو تہس نہس نہیں کرنے کے خطوط پر استوار کیاجارہاہے، ان کے علاوہ بھی کئی اہم مسائل اور معاملات ہیں جو اوسط شہریوں کیلئے پریشانیوں سے کہیں زیادہ سوہان روح بن رہے ہیں۔
ایسے میں اعلیٰ سیاسی سطح پر باتیں صرف الیکشن کے انعقاد ،ریاستی درجہ کی بحالی اور الیکشن کے بعد نتائج کی بُنیاد پرممکنہ مختلف گٹھ بندھنوں کے تعلق سے لکیروں کی کھینچا تانی ہورہی ہے۔ ہر سیاسی پارٹی اپنے اپنے مخصوص عینک سے بات کررہی ہے ، لوگ کیا چاہتے ہیں ، ان کے مسائل کیا ہیں، وہ کن دشواریوں اور سنگینیوں سے جھوج رہے ہیں، ان مسائل اور معاملات کی نوعیت یوٹی سطح کی ہی نہیں ہے بلکہ ہر گلی کوچہ، محلہ اور بستی کے رہائشیوں کے اپنے اپنے مسائل اور خواہشات ہیں، ان کے بارے میںکوئی بات نہیں کرتا بلکہ المیہ یہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی لوگوں کو اپنے اپنے لئے تسخیر شدہ شئے یا بھیڑ بکریوں کا اندھا ، کانا اور گھونگا ریوڑ ہی سمجھ رہاہے۔
یہ بات نہیں ہے کہ لوگ الیکشن کا اہتمام وانعقاد نہیں چاہتے یاانہیں اس جمہوری عمل پر اعتماد نہیں ہے بلکہ مایوسی اس وجہ سے ہے کہ حالیہ ایا م میں پنچایتوں، بلدیاتی اداروں اور ضلعی سطح کے انتخابات منعقد ہوئے، جن میںلوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اگر چہ ڈالے گئے ووٹوں کا شرح تناسب اطمینان بخش نہیں رہا لیکن لوگ گھروں سے باہر آئے اور جمہوری پراسیس میں شرکت کرکے جمہوری عمل پر اپنے راسخ یقین اور اعتماد کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ لیکن جو لوگ ان اداروں کیلئے منتخب ہوئے وہ اب تک اپنی طرف سے کوئی قابل قدر خدمات اور سروسز کے حوالہ سے کوئی فخریہ رول اداکرتے نظرنہیں آئے، اس کے برعکس ان کی تمام تر توجہ اپنے لئے سہولیات اور مراعات کے حصول، پروٹوکول کی قطار میں اپنا رتبہ، کے ساتھ ساتھ کچھ اداروں کے منتخبہ اراکین کے درمیان بالادستی اور اداروں کو کنٹرول کرنے کی جنگ، ایک دوسرے پر کورپشن اور بدعنوانیوں کے الزامات اور جوابی الزامات ،ایک پارٹی سے مستعفی ہوکر دوسری کسی پارٹی میں شرکت کرکے گلے میں پھولوں کی مالائیں پہنوانے کیلئے فوٹو سیشن کا اہتمام، اور اب کچھ اداروں کی جانب سے معیاد ملازمت رکنیت میں دو سال کی توسیع کا مطالبہ بھی سامنے آرہاہے۔
جموں وکشمیر باالعموم اور کشمیر باالخصوص سرحد پار کی اعانت سے دہشت گردی کا بوجھ سہہ رہاہے، اس تعلق سے گذرے برسوں کے دوران مسلسل طور سے سرکاری سطح پر جو اعداد وشمارات ظاہر کئے جاتے رہے ہیں وہ تعداد بیک وقت کبھی اور کسی بھی مرحلہ پر ۳۰۰ سے تجاوز نہیں ہوئے، لیکن ۸۰؍ لاکھ کی آبادی جہاں اس ناچاہے بوجھ اور مضمرات سے جھوج رہے ہیں اور توقع کرتی چلی آرہی ہے کہ سیاسی جماعتیں، سیاسی لیڈران اور حکومت بحیثیت مجموعی لوگوں کی اس کسمپرسانہ زندگی اور حالت زار کو محسوس کرتے ہوئے ان کیلئے راحتی اقدامات فراہم کرنے کی کوشش کرے گی بدقسمتی یہ ہے کہ لوگ جن کی طرف اپنی نگاہیں اور توجہ مرتکز کررہے ہیں اس اُمید کے ساتھ کہ کسی نہ کسی مرحلہ پر ان کی راحت رسانی کی سمت میں سنجیدہ اقدامات اُٹھائے جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہورہاہے، صرف سیاست کی جارہی ہے اور حصول اقتدار کے تعلق سے اس سیاست کو بھی پراگندہ کیاجارہاہے۔
توقع تھی کہ ۵؍اگست کے بعد جموںوکشمیر میں لوگوں کی صحیح طور سے راہنمائی کرنے، ترقیاتی عمل کو فروغ دے کر اس ترقیات کا ثمرہ گھر گھر تک پہنچانے، امن کے قیام کو یقینی بنانے کی سمت میں ماحول سازی کی طرف توجہ مرکوز کرنے اور دہائیوں سے لوگ جن مسائل اور معاملات اور محرومیوں سے جھوج رہے ہیں ان کا ازالہ کرنے کیلئے کوئی نئی مگر ٹھوس اور جامع حکمت عملی اور نئی منصوبہ بندی کو ترجیحات کا حصہ بنانے کی سمت میں عملی اقدامات اُٹھا کر ایک نئی پراعتماد، شفاف، دیانتدار ، کورپشن سے صاف وپاک لیڈر شپ کو تلاش کیاجائے گا لیکن لوگوں کی یہ توقع بھی حسرت ہی بن گئی۔
جموں وکشمیر کی سیاسی، اقتصادی ، انتظامی ،معاشرتی اور تہذیبی و اعلیٰ اقدار کی تباہی وتنزلی کے جو لوگ بلواسطہ یا بلاواسطہ گذرے ۷۵؍ برسوں کے دوران ذمہ دار اور گناہ گار رہے ہیں وہی آج کی تاریخ میں کوٹ بدل کرسیاسی منظرنامے پر جلوہ گر ہیں، کوٹ بدلنے اورنیا سیاسی جامہ زیب تن کرنے سے پرانی شبیہہ جہلم کی رواں لہروں میں بہہ کر سمندر کی جھاگ کا حصہ نہیں بن جاتی بلکہ لوگوں کی یادوں اور ماضی کے حوالہ سے ان کے رول اور کردار کے نقوش ذہنوں میں موجود رہتے ہیں۔
بہرحال کچھ معاملات کے تعلق سے مکافات عمل حقیقت ہے۔ لوگ بے شک تکالیف اور سنگین نوعیت کے مسائل سے جھوج رہے ہیں، یہ مسائل اور معاملات اس حد تک سنگین رُخ اختیار نہ کرپاتے اگر لوگوں نے اپنی سیاسی قیادت کرنے والوں سے بروقت سوال کئے ہوتے، ان کے ہر عمل کا محاسبہ کیاہوتا، اپنے حقوق او رمفادات کے تحفظ کی سمت میں ان کے جانبدارانہ اور ان کی سیاسی مصلحتوں کے تابع فیصلوں کی مزاحمت کی ہوتی، لوگوںنے ان میں سے کوئی راستہ اختیار نہیں کیا، نہ سوال کیا، نہ مزاحمت کی اور نہ ہی محاسبہ کے حوالہ سے اپنے حق کا استعمال کیا۔