سرینگر///
ڈیموکریٹک آزاد پارٹی (ڈی اے پی) کے چیئرمین‘ غلام نبی آزاد نے ہفتے کو کہا کہ جب تک ووٹر ان کے ساتھ نہیں ہیں‘انہیں لیڈروں کے پارٹی چھوڑنے کی کوئی فکر نہیں ہے۔
ان کے یہ ریمارکس ان کے کئی ساتھیوں کے ڈی اے پی چھوڑ کر کانگریس میں واپس آنے کے بعد آئے ہیں۔
آزاد نے کہا کہ وہ یہاں کے لوگوں کی تکالیف دیکھ کر جموں کشمیر آئے ہیں اور وہ لیڈروں پر’بھروسہ‘ نہیں کرتے۔
ڈی اے پی کے چیئر مین نے کہا’’مجھے فکر نہیں ہے کہ۱۰ یا ۱۲ لیڈر دہلی جائیں گے۔ جب تک ووٹر میرے ساتھ ہیں، میں لیڈروں کی فکر نہیں کرتا۔ آپ (ووٹر) لیڈر بناتے ہیں۔ میں ٹکٹ دیتا تھا، تم نے انہیں جتوایا۔‘‘
اب ٹکٹ دینے والے اور جتوانے والے اکٹھے ہو گئے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کتنے جیتیں گے،‘‘ آزاد نے یہاں پارٹی کی تقریب میں کہا۔
جمعہ کو۱۷ ڈی اے پی لیڈران بشمول جے کے کے سابق نائب وزیر اعلیٰ تارا چند اور جے کے پی سی سی کے سابق سربراہ پیرزادہ محمد سعید نے دہلی میں دوبارہ کانگریس میں شمولیت اختیار کی۔
آزاد نے کہا کہ ان کی پارٹی چھوڑنے والے لیڈران کو’انشاء اللہ ان کے اپنے حلقوں میں بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔انہوں نے کہا کہ وہ لیڈروں پر بھروسہ کرتے ہوئے جموں کشمیر نہیں آئے ہیں بلکہ عوام کے لیے آئے ہیں۔’’میں یہاں تمہارے دکھوں، مصیبتوں کو دیکھ کر آیا ہوں۔ غربت، بے روزگاری دیکھ کر واپس آیا ہوں‘‘۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا ’’ہمارے لوگ خوف کے ماحول میں جی رہے ہیں۔ کب کسی کو گرفتار کیا جائے گا، کوئی نہیں جانتا، لوگوں کی زمین، عمارت یا مکان کب چھینے جائیں گے، اس کی کوئی گارنٹی نہیں۔ کوئی لیڈر یا سیاسی جماعت اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتی۔ اس لیے، میں نے یہاں آنے کیلئے سب کچھ چھوڑ دیا۔‘‘
جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ملک یا جموں کشمیر کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس کا انہوں نے دورہ نہ کیا ہو اور جہاں انہوں نے لوگوں کی مدد نہ کی ہو۔انہوں نے کہا کہ ان میں ہمت کے ساتھ ساتھ’شناخت اور اثر و رسوخ‘ بھی ہے کہ وہ اسے جموں و کشمیر کے لوگوں کی بہتری کیلئے استعمال کر سکے۔
ڈی اے پی کے چیئر مین نے کہا’’لوگ مجھے بتاتے ہیں کہ میں نے کسی خاص جگہ پر اس سے۱۰ گنا ترقیاتی کام کیے ہیں۔ اور جب میں یہاں آنے کے لیے سب کچھ چھوڑ کر آیا تو آپ نے بھی مجھے ۱۰ گنا پیار اور پیار دیا۔ میرے پاس دولت نہیں ہے لیکن میرے پاس پروگرام ہیں۔ میرے پاس ہمت ہے، میرے پاس واقفیت ہے، اثر و رسوخ ہے، جسے میں اس ریاست کی بہتری، اس کے نوجوانوں کے روزگار کے لیے استعمال کر سکتا ہوں۔‘‘