راہل گاندھی کی ’بھارت جوڈو یاترا‘ میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی شرکت اور یاتر کی قیادت کررہے راہل اور اس کی بہن پرینکا گاندھی کو آشیرواد نیشنل کانفرنس لیڈر شپ کی سیاسی سوچ کے مطابق ہے لہٰذا یہ شرکت حیرانی کا موجب نہیں۔ا لبتہ یہ واضح کرنے کی ضرورت کئی ایک پہلو ئوں سے ناگزیر ہے کہ ڈاکٹر فاروق کی یاترا میں غازی آباد کے قریب شرکت ان کا اپنا ذاتی اور پارٹی کا فیصلہ ہوسکتا ہے کشمیرکا نہیں۔
یاترا اس مہینے کے آخری عشرے میں جموں وکشمیر میں داخل ہونے جارہی ہے جبکہ یاترا کے منتظمین کے مطابق راہل گاندھی ۳۰؍ جنوری کو سرینگرمیں ترنگا لہرا کر یاترا کے مکمل ہونے یا اختتام پذیر ہونے کا اعلان کریں گے۔ یاترا اور کشمیر کے حوالہ سے کچھ پہلو ایسے ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ہے۔ پہلا یہ کہ یاترا کے کس پہلو کا تعلق کشمیر سے ہے۔ بادی النظرمیں کوئی نہیں۔ سیاسی عینک یا سیاسی منظر نامے کے تناظرمیں دیکھاجائے تو کانگریس کشمیر میں کچھ علاقوں میں موجود رہی ہے لیکن کشمیر سے پارٹی گذرے ۷۵؍ برس کے دوران کسی بھی مرحلہ پر اپنے حق میں مکمل منڈیٹ حاصل نہیں کرسکی ہے۔ اگر چہ کانگریس ۷۵ء تک بغیر کسی کی شرکت کے مسند اقتدار پر براجماں رہی ہے ۔ کانگریس اقتدار پر کیوں اور کن حالات میں مسند اقتدار پر اپنے عہد شکن جلوے بکھیرتی رہی وہ محتاج وضاحت نہیں کیونکہ کشمیر کی ماضی قریب کی تاریخ بطور گواہ موجود ہے۔
پھر بھی چونکہ یاترا کے منتظمین نے یاترا کو کنیا کماری سے کشمیر تک لے جانے کا پروگرام مرتب کیا ہے لہٰذا ظاہر ہے یاترا کا اختتامی سفر کشمیر پہنچ کرہی ختم ہوگا۔ اس امر کے باوجود کہ کانگریس کو کشمیر سے کوئی پذیرائی حاصل نہیں اس کے باوجود انہیں یاترا کو کشمیر تک لے جانے کی آزادی ہے، اس حوالہ سے کوئی بھی پہلو قابل اعتراض نہیں۔
البتہ یاترا کے منتظمین کا یہ اعلان کہ سرینگر میں ترنگا لہرا کریاترا کو اختتامی سلامی دی جائیگی باعث حیرت ضرور ہے۔ ماضی قریب میں سرینگرمیں ترنگا لہرانے کے حوالوں سے کئی ایک تنظیمیں، افراد، پارٹیاں وغیرہ ایک دوسرے پر سبقت لینے کی سرتوڑ کوششیں کرتی رہی ہیں جن کے ردعمل میں کانگریس کا موقف یہی رہا ہے کہ ترنگا توکشمیر پر لہرا رہاہے سڑکوں پر اسے لہرانے کی ضرورت نہیں۔ بہرحال اب کانگریس بھی جھنڈا لہرانے کی اس دوڑ میں شامل ہونے جارہی ہے تو اعتراض نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ کانگریس ترنگا لہرانے کی دوڑمیں کشمیر کے حوالہ سے اپنی سیاسی پست خیالی کو زبان دے رہی ہے۔ راہل اور یاترا کے منتظمین ہی بتائیں کہ ترنگا کشمیرکے کس حصے میں نہیں لہرا رہا ہے کہ کانگریس کو ترنگا لہرانے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ ویسے بھی ۲۶؍ جنوری یوم جمہوریہ کی مناسبت سے کشمیر کے ہر سو ترنگا کی لہر درلہریں لہراتی نظرآئینگی، پھرا س کے محض ۴دن بعد ۳۰؍ جنوری کو لہرانے کا اعادہ کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں۔
ایک اور پہلو یہ ہے کہ یاترا میں کشمیر نشین کچھ پارٹیوں کی لیڈر شپ کی شرکت بھی متوقع ہے جن میں نیشنل کانفرنس سمیت پی ڈی پی اور کمیونسٹ پارٹی کی لیڈر شپ کا نام بھی لیاجارہا ہے۔ یاترا میں ان پارٹیوں کی شرکت ان کی اپنی سیاسی مصلحتوں یا مجبوریوں کا مطیع ہے بحیثیت مجموعی کشمیر اور کشمیریوں کا نہیں۔ پھر بھی اگر کشمیر سے کچھ لوگ کانگریس کی اس یاترا کا حصہ بن جائیں تو وہ کانگریس کی خوش نصیبی اور خوش قسمتی ہی تصور کی جائیگی۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن وجوہات کا حوالہ دیاجاتا رہاہے ، جن وجوہات کا عوامی اور سیاسی حلقوں میں گذری کئی دہائیوں سے بحث وتکرار جاری ہے اور جن وجوہات کو کشمیر کی موجودہ پُرآشوب حالات کا براہ راست ثمرہ تصور کیاجارہاہے۔
پھر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ایسے معاملات میں ’تماشہ بینوں‘ کی بھی کوئی کمی نہیں ہوتی ہے، کشمیر توا س حوالہ سے دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ مشہور ہے۔ آپ شہر کے کسی پل پر محض چند منٹوں کیلئے کھڑے ہوکر نیچے دریامیں بہتے پانیوں کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھیں یا محض ہاتھ سے اشارہ کریں تو ان واحد میں ہزاروں لوگ جمع ہوجائیں گے اور بہتے پانی کی طرف دیکھتے رہینگے، کوئی یہ جاننے کی زحمت گوارا نہیں کرے گا اور پوچھے گا کہ آخر ہوا کیا اور ہے کیا؟لہٰذا تماشہ دیکھنا، یاترا کے گذرنے کا مشاہدہ کرنا اور یاترا میں بہ نفس نفیس شرکت کرنا یہ سارے الگ الگ معنی رکھتے ہیں۔ اس تعلق سے یاترا کے منتظمین ،مقامی یابیرون جموںوکشمیر جو بھی ہیں مطمئن رہیں کشمیر میں لوگ یاترا کو ضرور دیکھیں گے۔
یہ سوال بھی کچھ حلقوں میں زیر بحث ہے کہ کشمیر نشین جو بھی پارٹیاں یاترا میں شرکت کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں کیا اس حوالہ سے انہیں عوام کا منڈیٹ حاصل ہے۔ اس سوال کا جواب قدرے مشکل ہے البتہ یہ واضح ہے کہ کشمیر نشین سیاسی پارٹیوں نے اس مخصوص معاملے پر عوام کا منڈیٹ حاصل کیا ہے اور نہ ہی کوئی رائے حاصل کرکے انہیں اعتماد میں لیاہے۔پھر یہ سوال بھی کیاجارہاہے کہ باالفرض یہ فیصلہ کر بھی لیاجائے کہ یاترا میں شرکت کی جائیگی تو ایسا کرنے سے کشمیر کو کیا حاصل ہوگا؟ کیونکہ وہ سوال ہے جو نہ صرف آج کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے بلکہ کشمیر کی تاریخی حوالوں، فیصلوں اور اقدامات سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔
لوگ یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ الحاق کے وقت کشمیر کے ساتھ جن آئینی تحفظات کو مخصوص کردیاگیا تھا اور ملک کی اولین حکومتی قیادت نے جو عہد وپیمان باندھے خود اسی حکومت اور اس کی قیادت کرنے والے ان تحفظات سے مکر گئے اور عہد شکن بھی خود کو ثابت کردیا۔ سابق را چیف اے ایس دلت کا اس حوالہ سے حالیہ انکشاف کہ ۱۹۷۵ء میں اندرا …شیخ اکارڈ پر دستخط کے ساتھ ہی آئین کی دفعہ ۳۷۰ کا بھی عملاً خاتمہ ہوگیا تھا۔ گویا دوسرے الفاظ میں نیشنل کانفرنس کی لیڈرشپ آئین کی اس دفعہ کا خاتمہ کرانے میںکانگریس کی شریک بلکہ شکمی شریک رہی ہے۔ لیکن ملک کی عدالت عظمیٰ کے روبرو اس کے آئین سے حذف کرنے کے موجودہ حکومتی فیصلے کو چیلنج کررہی ہے، کیا یہ ریاکاری اور دوغلا پن نہیں؟جس منفرد تشخص کا تحفظ کرنے کے دعویٰ کئے جارہے ہیں اُس تشخص کو ختم کرانے کی سمت میں آلہ کار کے طور کام کیااور ایسا کرکے اپنے لئے اقتدار کے تحفظ اور حصول کی ضمانتیں حاصل کیں۔
اس کردار کے باوجود یاترا میں پارٹی لیڈر شپ کی شرکت ان کی اپنی آقا کے تئیں وفاداری کا محض تسلسل ہی تصور کیاجاتا رہے گا۔ پی ڈی پی مستثنیٰ نہیں !