سرینگر/۳۱ دسمبر
جموں و کشمیر پولیس نے ہفتہ کو کہا کہ گزشتہ سال کے مقابلے اس سال دہشت گردوں کی بھرتیوں میں 37 فیصد کمی آئی ہے۔
اے ڈی جی پی کشمیر، وجے کمار نے ایک ٹویٹ میں کہا”اس سال، دہشت گردوں کی صفوں میں 100 تازہ بھرتیوں کی اطلاع ملی ہے جو پچھلے سال کے مقابلے میں 37 فیصد کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ (74) لشکر طیبہ میں شامل ہوئے۔ کل بھرتیوں میں سے، 65 دہشت گردوں کو انکاو¿نٹر میںہلاک کر دیا گیا، 17 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا اور 18 دہشت گرد اب بھی سرگرم ہیں“۔
کمار نے کہا کہ 2022 میں کشمیر میں 93 کامیاب مقابلے ہوئے جن میں 42 غیر ملکی دہشت گردوں سمیت 172 دہشت گرد مارے گئے۔ انہوں نے مزید کہا”زیادہ سے زیادہ دہشت گردوں کو لشکر طیبہ/TRF (108) تنظیم سے ہلاک ہو ئے‘ جس کے بعد JeM (35)، HM (22)، البدر (4) اور AGuH سے(3) شامل ہیں“۔
اے ڈی جی پی نے کہا کہ نئے بھرتی ہونے والے دہشت گردوں کی عمر میں اس سال بڑی حد تک کمی آئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ”اس سال مارے گئے کل 65 نئے بھرتی ہونے والے دہشت گردوں میں سے، 58 (89فیصد) کو ان کی شمولیت کے پہلے مہینے کے اندر ہی ہلاک کر دیا گیا“۔
اے ڈی جی پی نے ٹویٹس کی ایک سیریز میں کہا کہ اس سال بھاری مقدار میں ہتھیار برآمد ہوئے ہیں۔ 360 ہتھیار جن میں 121 اے کے سیریز کی رائفلیں، 08 ایم 4 کاربائن اور 231 پستول شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، IEDs، سٹکی بموں اور دستی بموں کو بروقت پکڑنے سے دہشت گردی کے بڑے واقعات ٹل گئے۔
شہری ہلاکتوں پر، انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں 29 شہری مارے گئے، جن میں 21 مقامی باشندے (6 ہندو، جن میں 3 کشمیری پنڈت، اور 15 مسلمان شامل ہیں) اور آٹھ دیگر ریاستوں سے تھے۔
کمار نے کہا”ان دہشت گردی کے جرائم میں ملوث تمام دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے سوائے باسط ڈار اور عادل وانی کے جنہیں جلد ہی ختم کر دیا جائے گا“۔
اے ڈی جی پی نے کہا کہ اس سال سیکورٹی فورسز کے 26 اہلکار ہلاک ہوئے جن میں جموں کشمیر پولیس کے 14 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ ان کاکہنا تھا”سال کے دوران، 14 JKP اہلکاروں سمیت سیکورٹی فورسز کے کل 26 اہلکار دہشت گردانہ حملوں/ مقابلوں کے دوران شہید ہوئے۔ ان دہشت گردی کے جرائم میں ملوث دہشت گردوں کی اکثریت کو مارا گیا ہے“۔
کمار نے کہا کہ انہوں نے معاشرے میں دو ’نمایاں تبدیلیاں‘ دیکھی ہیں۔”گھر کے مالکان نے دہشت گردوں کو پناہ دینے سے انکار کرنا شروع کر دیا اور اگر ان کے بچے دہشت گردی میں شامل ہو جائیں تو والدین کو فخر نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ ان سے واپس آنے کی اپیل کرتے ہیں، دہشت گردوں کو کھلے عام لعنت بھیجتے ہیں اور اپنے بچوں کی واپسی کے لیے جے کے پی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔“