نئی دہلی/۳۰ دسمبر (اے این آئی)
کانگریس کے سابق رہنما غلام نبی آزاد کے پارٹی میں واپس آنے کا امکان ہے کیونکہ دونوں کے درمیان بات چیت شروع ہوگئی ہے، ذرائع نے جمعہ کو بتایا۔
آزاد نے 26 اگست کو کانگریس پارٹی سے اپنی 52 سالہ طویل وابستگی چھوڑ دی اور اکتوبر میں اپنی نئی سیاسی تنظیم ’جمہوری آزاد پارٹی‘ کا اعلان کیا۔
ذرائع کے مطابق گجرات اور ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات کے دوران آزاد نے کہا تھا کہ صرف کانگریس ہی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے مقابلہ کر سکتی ہے۔ اس دوران آزاد نے کہا تھا کہ وہ کانگریس کی پالیسی کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس کے کمزور نظام سے مسائل ہیں۔
آزاد کے بیان کے بعد، کانگریس کی زیرقیادت بھارت جوڈو یاترا کے کنوینر، دگ وجئے سنگھ نے آزاد کو کھلے عام یاترا کا حصہ بننے کی دعوت دی، جس کے بعد G23 کے سابق لیڈروں‘ اکھلیش پرساد سنگھ اور بھوپندر سنگھ نے آزاد سے رابطہ کیا اور ان کی کانگریس میں واپسی کی وکالت کرنے کے علاوہ اس یاترا میں شامل ہونے کی وکالت کی۔
اہم بات یہ ہے کہ پارٹی نے حال ہی میں ایم پی اکھلیش پرساد سنگھ کو بہار کانگریس کا صدر بنایا ہے اور بھوپندر سنگھ ہڈا کو ہریانہ کی کانگریس کی کمان سونپی گئی ہے۔
دریں اثنا، جموں و کشمیر کے سابق نائب وزیر اعلیٰ تاراچند سمیت بہت سے لیڈر جو کانگریس چھوڑ کر آزاد کے ساتھ چلے گئے تھے‘ نے حال ہی میں مو¿خر الذکر کے کیمپ کو بھی چھوڑ دیا۔
ذرائع کے مطابق آزاد کے علاوہ کئی رہنما جموں کشمیر میں بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہوں گے۔
اپنے استعفیٰ میں کانگریس کے سابق سربراہ راہول گاندھی پر آزاد کے تیز حملوں کے باوجود، جس نے خاندان کو پریشان کر دیا ہے‘ پارٹی آزاد کو’گھر‘ واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
اس کے لیے اکھلیش پرساد سنگھ اور بھوپندر سنگھ ہڈا، اور امبیکا سونی کو غلام نبی آزاد اور کانگریس کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
امبیکا سونی گاندھی کی پرانی وفادار ہیں جن کے آزاد کے ساتھ اچھے سیاسی تعلقات ہیں۔
اس معاملے سے باخبر لوگوں کے مطابق، امبیکا سونی نے آزاد سے کہا ہے کہ پہلے یاترا میں آئیں اور پھر راہل گاندھی سے بات کریں کیونکہ انہوں نے جاتے وقت ان پر براہ راست حملے کیے تھے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، اور محبوبہ مفتی کے جموں و کشمیر میں پد یاترا میں شامل ہونے کے اعلان کے باوجود آزاد نے کانگریس کے قومی ترجمان ‘جے رام رمیش کی جانب سے پیدل مارچ میں شرکت کےلئے دیے گئے اشاروں کا کوئی جواب نہیں دیا۔
ابھی تک، آزاد اور کانگریس راہل پر ذاتی حملے کی وجہ سے آمنے سامنے ہیں جو انہوں نے پارٹی چھوڑنے کے دوران کیا تھا، لیکن فی الحال دونوں کے درمیان بات چیت جاری ہے۔
سونیا گاندھی کو اپنے استعفیٰ کے خط میں آزاد نے پارٹی قیادت بالخصوص راہول گاندھی کو پارٹی چلانے کے طور طرےقوں پر نشانہ بنایا تھا ۔
پانچ صفحات پر مشتمل سخت گیر خط میں آزاد نے دعویٰ کیا تھا کہ پارٹی کو ایک گروہ چلاتا ہے جب کہ سونیا گاندھی محض ایک ”نامزد سربراہ“ ہیں اور تمام بڑے فیصلے ”راہل گاندھی یا اس سے بھی بدتر ان کے سیکورٹی گارڈز اور پی ایزنے لیے تھے۔
آزاد پہلے راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر تھے۔ کانگریس کے ساتھ اپنی طویل وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے، آزاد نے کہا تھا کہ پارٹی کی صورت حال اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ ”واپسی نہیں“۔
جہاں آزاد نے خط میں سونیا گاندھی پر طنز کیا، وہیں ان کا سب سے تیز حملہ راہل گاندھی پر کیا گیا اور انہوں نے موصوف کو ایک’غیر سنجیدہ فرد‘ اور ’نادان‘ قرار دیا تھا۔