کانگریس کی طرف سے اپنے سابق لیڈر غلام نبی آزاد کے ہر ایک بیان کو جھٹلانے کی ہر کوشش کو ،ایسا لگ رہا ہے ، اپنا پالیسی منشور بنالیا ہے لیکن ان کے بیانات کو جھٹلانے کیلئے ایک چھوٹے قد کے کارکن کو میدان میں جھونک کرپارٹی ہائی کمان اپنی ذہنی افلاس کا ہی مظاہرہ کررہی ہے۔
پارٹی کے نو نامزد یونٹ صدر وقار رسول اپنے سابق سیاسی گرو غلام نبی آزاد کے ہر بیان کو پانی پی پی کر کوس رہے ہیں اور جھٹلاتے جارہے ہیں۔ آزاد کے بارے میں بار بار یہ فتویٰ جاری کیا جارہاہے کہ مرکز میں حکمران بی جے پی نے انہیں الیکشن کو مد نظر رکھ کر پیشگی جموں وکشمیرمیںکھڑا کردیا ہے۔ ویسے بھی جموں وکشمیر باالخصوص کشمیر نشین کچھ جماعتوں کو بھی کشمیرمیں بی جے پی کی اے ، بی ، سی ٹیموں کی عینک سے دیکھنے اور عوام کے سامنے پیش کرنے کا ٹرینڈ چل رہا ہے۔ ایسا کرکے غالباً لوگوں کے ذہنوں پر اثرا نداز ہونے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لوگ پارٹیوں کے بارے میں چلا ئے جارہے ہیں اس مخصوص ٹرینڈ سے کس حد تک منفی یا مثبت طور سے متاثر ہورہے ہیں اس بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ کہا نہیں جاسکتا البتہ سیاسی لینڈ سکیپ کو اپنے اپنے مخصوص انداز میں متاثر کرنے کی ہر پارٹی ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔
جموں وکشمیر کی سیاسی افق پر جلوہ گر آزاد کی پارٹی کو ابھی جمعہ جمعہ ۸؍ ہی دن ہوئے ہیں لیکن اس کو بھی میڈ ان دہلی کے طور پر پیش کیاجارہاہے۔ اس پارٹی کو اس چہرہ کے ساتھ منسلک کرکے پیش کرنے والی کانگریس پیش پیش ہے لیکن خود کانگریس جموں وکشمیر کے حوالہ سے کس وکٹ پر کھڑی ہے اس کا شاید پارٹی لیڈر شپ کو احساس نہیں۔ کانگریس کون سی جموں وکشمیرنشین پارٹی ہے۔بے شک و ہ ایک عرصہ تک برسراقتدار رہی یا دوسری پارٹیوں کے ساتھ شریک اقتدار رہی ہے لیکن اس اقتدار اور شریک اقتدار کے حوالہ سے کانگریس کی ایک ایسی تاریخ ہے جس تاریخ کا چہرہ یا شبیہ مسخ شدہ ہے۔
بہرحال تازہ ترین تردیدی بیان کا تعلق غلام نبی آزاد کے اُس دعویٰ یا بیان سے ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ جب وہ وزیراعلیٰ تھے تو انہوںنے اپنی وزارتی کونسل میں شامل بعض وزراء اور بعض سیاستدانوں کے جنگجوئوں کے ساتھ روابط کے بارے ایک مفصل رپورٹ اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور وزیرداخلہ شیو راج پاٹل کو پیش کی تھی لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر ان کے رپورٹ پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ بیان یا دعویٰ کا تعلق سابق وزیراعظم اور سابق وزیر داخلہ سے ہے لیکن جو اب کانگریس کا مقامی عہدیدار کی طرف سے دیا جارہاہے۔ جواب ، صحیح یا غلط، انہی کی طرف سے سامنے آناچاہئے جن سے بیان منسوب ہے۔
وقار اپنے طور سے بیانات کو جھٹلاتا جارہاہے یاپارٹی ہائی کمان کی ہدایت پر ، معلوم نہیں، لیکن اگر وہ اپنے طور سے جھٹلانے پر کمر بستہ ہے تو اس کے پیچھے ذہن اور ہدف یہی ہوسکتاہے کہ وہ ہائی کمان کی نگاہوں میں اپنے قد کو بڑھاوادینا چاہتے ہیں لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کانگریس کا مقامی عہدیدار آزادکے اس مخصوص دعویٰ کو کیوں جھٹلارہاہے ۔ کیا آزاد کا رپورٹ پیش کرنے اور اس پر مرکزی قیادت کی جانب سے کوئی کارروائی نہ کرنے کا بیان یا دعویٰ غلط ہے، سیاسی اختراع ہے یا پارٹی قیادت کو اس حوالہ سے جواب دہی کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش ہے؟
جو کچھ بھی ہے آزاد کے بیان کی روشنی میں اب ظاہر ہے ماضی کے ریکارڈ کو کھنگالا جائے گا اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جائیگی کہ کیا رپورٹ واقعی پیش کی گئی تھی اور اگر کی گئی تھی تو اس میں کن وزراء اور سیاستدانوں کی جنگجوئوں سے روابط ہونے کا انکشاف موجود تھا اور پھر کارروائی سے ہاتھ کیوں روک لیاگیا۔ کارروائی سے ہاتھ روکنے والا کون تھا اور کیوں مرکزی قیادت نے کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
اگر آزاد کے مذکورہ بیان کی صداقت ثابت ہوتی ہے تو کہاجاسکتا ہے کہ جموں وکشمیر کی سیاسی افق کے حوالہ سے یہ ایک نیا فلڈ گیٹ ثابت ہوسکتاہے اور وہ سبھی چہرے بے نقاب ہوسکتے ہیں جن کی شناخت رپورٹ میں ظاہر کی گئی تھی۔ تاہم اس بارے میں وقار کا یہ کہنا کہ آزاد طاقتور وزیر اعلیٰ تھے تو خود کیوں کارروائی نہیں کی، سوال بے بُنیاد ہے کیونکہ جموں وکشمیر کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کانگریس چاہئے برسراقتدار ہو یا اقتدار سے باہر کا ورکنگ کلچر کیا ہے۔ کانگریس اپنے کسی بھی وزیراعلیٰ کو مقررہ حدود سے متجاوز کرنے کی اجازت نہیں دیتی، اور نہ ہی الیکشن کے بعد منتخب ارکان کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے طور سے لیجسلیٹر پارٹی کے لیڈر کا انتخاب کرے۔ سب کچھ میڈان دہلی ہے بالکل اُسی طرح جس طرح سے آزاد کے دعویٰ یا بیان کو جھٹلانے کیلئے ہائی کمان نے اپنے چھوٹے سے مہرہ کو حرکت میں لاکر میدان میں جھونک دیا ہے۔آزاد کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ از خود کارروائی اس لئے نہیںکی ہوگی کیونکہ وہ بھی پارٹی کے اسی مخصوص کلچر کا حصہ تھے اور اس مخصوص کلچر کو نشوونما عطاکرنے میں ان کا بھی مختلف حوالوں سے رول رہاہے۔
جموںوکشمیر کا نگریس کی موجودہ قیادت کے حوالہ سے کہاجاسکتا ہے کہ اس قیادت کا ایک اچھا خاصہ حصہ جموں وکشمیرمیں اپنی پارٹی کے رول اور کردار سے غالباً زیادہ واقفیت نہیں رکھتا۔ قیادت کی اُس مخصوص صف میں وقار رسول بھی کھڑا نظرآرہاہے۔ تاریخ اور رول کے حوالہ سے یہ دعویٰ آج کی تاریخ میں بھی کشمیر کے سیاسی حلقوں میںزبان زد ہے کہ کانگریس نے جماعت اسلامی کو سیاسی اور الیکشن اکھاڑے میں اُتارنے کی سمت میں اہم کردار اداکیا تھا۔
اس حوالہ سے ۱۹۷۲ء کی تاریخ سے وابستہ کچھ اوارک کی گرانی کرنی پڑے گی۔ کشمیر پرامن تھا، کوئی سیاسی یا غیر سیاسی ہلچل کہیں سے بھی نظرنہیں آرہی تھی ، شغل کے طور’ بک آف نالیج ‘کو جنم دیاگیا۔۸۷ء میں انتخابی دھاندلیوں کا ایک نیا مگر رہتی دُنیا تک نہ ٹوٹنے اور نہ بھلائے جانے کا ریکارڈ قائم کرکے راجیو …فاروق اکارڈ کو نیا چہرہ اور نئی شناخت عطاکی گئی اور جو لوگ الیکشن کا حصہ تھے اور بیلٹ بکس پر اعتماد رکھتے تھے راتوںرات کریک ڈائون کرکے جیلوں کی نذر کردیاگیا اور جو لوگ پویس اسٹیشنوں میں قید کئے گئے تھے انہیں اور ان کے والدین کو انہی کے سامنے ذلیل کیاگیا، ننگا کیاگیا اور شدید ٹارچر سے گذارا گیا۔ جمہوریت کا قدم قدم پر جنازہ نکالا جاتا رہا کیا کانگریس کی موجودہ قیادت کو اپنی پارٹی کے اس مخصوص ماضی کی واقفیت نہیں۔