واشنگٹن//
امریکہ نے میانمار کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کمی لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں واشنگٹن ڈی سی رواں ماہ اپنے موجودہ سفیر کی میانمارسے روانگی کے بعد وہاں سفیر تعینات نہیں کرے گا۔
میانمار میں گزشتہ سال جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد فوج حکومت پر قابض ہے جسےاسٹیٹ ایڈمنسٹریٹو کونسل کہا جاتا ہے۔
سفارتی ذرائع نے وائس آف امریکہ کی برمی سروس کو بتایاہے کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے موجودہ امریکی سفیر تھامس واجدا کا جانشین نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تھامس واجدا کی سفارتی ذمہ داریاں اس ماہ کے آخر میں ختم ہونے والی ہیں۔
ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس معاملے پر بات کی کیوں کہ ابھی تک محکمۂ خارجہ کی طرف سے اس بات کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا۔کولکتہ سے تقریباً 55 کلومیٹر جنوب میں، باروئی پور گاؤں کے قریب ایک روہنگیا پناہ گزین خاتون ایک عارضی پناہ گاہ میں کھانا بنا رہی ے۔
ڈپٹی چیف آف دی مشن ڈیبورا لین سفیر تھامس واجدا کی روانگی کے بعد رنگون میں امریکی سفارت خانے کی بطور انچارج ڈی افیئرز کے طور پر فرائض سنبھالیں گی۔
موجودہ امریکی سفیر تھامس واجدا جنوری 2021 میں اس وقت میانمارپہنچے تھے جب میانمار کی فوج نے آنگ سان سوچی کی منتخب جمہوری حکومت کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔
سفارتی تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے میانمار میں سابق امریکی سفیر اسکاٹ مارسیئل نے وی او اے کو بتایا کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ اس کا سفیر میانمارکی حکمران فوجی جنتا کو اسناد پیش کرے۔
انہوں نےکہاکہ "بنیادی بات یہ ہے کہ ایک نئے امریکی سفیر کو اسٹیٹ ایڈمنسٹریٹو کونسل کو اپنی اسناد پیش کرنا پڑیں گی اور اس سے یہ تاثر پیدا ہوگا کہ امریکہ جنتا کو قانونی حیثیت دے رہا ہے جو کہ واشنگٹن کبھی نہیں چاہتا۔ ”
میانمار کے لیے امریکہ کے نئے سفیر کو نا بھیجنے سے متعلق اسکاٹ مارسیئل نے کہا کہ یہ تعلقات میں خرابی نہیں ہے بلکہ ایک قسم کی تنزلی ہے، جیسا کہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں بھی ہوا تھا۔
مارسیل نے سن 2016 سے 2020 تک چار سال کے لیے میانمار میں امریکی سفیر کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔ان کے جانشیں تھامس واجدا نے دو سال سے کم وقت سے میانمار میں امریکہ کے سفیر کی خدمات انجام دی ہیں۔ہولوکاسٹ کے بعد یہ آٹھویں مرتبہ ہے کہ امریکہ نے کسی جگہ نسل کشی کو تسلیم کیا ہے۔
خیال رہے کہ برطانیہ اور آسٹریلیا سمیت بیشتر مغربی ممالک نے بھی میانمار کے ساتھ سفارتی تعلقات کو ڈاؤن گریڈ کر دیا ہے تا کہ ان معاہدوں پر دستخط کرنے سے گریز کیا جا سکے جو فروری 2021 میں منتخب نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی حکومت کو معزول کرنے والی حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کے مترادف ہوں گے۔
میانمار میں سفارتی ذرائع کے مطابق ایسے ممالک جنہوں نے میانمار میں اپنے سفارت خانے کھلے رکھے ہیں ان میں سے ڈنمارک، جرمنی، اسرائیل اور اٹلی اپنی سفارتی نمائندگی کو چارج ڈی افیئرز یا مشن کے سربراہ تک کم کر رہے ہیں یا ایسا کرنے کے عمل میں ہیں۔
برسلز میں مقیم سفارت کاروں نے بتایا ہے کہ یورپی یونین کے ممالک نے غیر رسمی طور پر میانمار میں مشنز میں سفیر نہ بھیجنے پر اتفاق کیا ہے۔