نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے کشمیری این جی او کی طرف سے دائر کیوریٹو پٹیشن کو خارج کر دیا ہے جس میں۹۰۔۱۹۸۹ میں وادی میں مارے گئے کشمیری پنڈتوں کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ایس عبدالنزیر پر مشتمل بنچ نے عرضی کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ’’ہم نے عرضی اور اس سے منسلک دستاویزات کا جائزہ لیا ہے اور ہماری رائے ہے کہ طے شدہ پیرامیٹرز میں کوئی معاملہ نہیں بنتا ہے‘‘۔
اس سے قبل اس این جی او کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک عرضی بھی دائر کی گئی تھی جسے اسی عدالت نے۲۰۱۷ میں مسترد کر دیا تھا۔
کیوریٹو پٹیشن میں فریقین کوسماعت کا موقع فراہم کرکے معاملے کو نئے سرے سے طے کرنے کی ہدایت دینے کی مانگ کی گئی تھی۔ عرضی میں ۱۹۸۴ کے سکھ مخالف فسادات کے کیس کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا گیا جب عدالت نے ۳۳ سال سے زیادہ کے وقفے کے بعد اس کیس کا نوٹس لیا تھا۔
دہلی ہائی کورٹ نے۱۹۸۶ کے سکھ مخالف فسادات کے فیصلے سے متعلق پانچ مقدمات کو دوبارہ کھول دیا تھا۔کیوریٹو پٹیشن میں یہ بھی بتایا گیا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف سی بی آئی کی اپیل اور رائے بریلی کی ایک عدالت میں چل رہے فوجداری کیس کو لکھنؤ کی خصوصی عدالت میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ بابری مسجد کے انہدام اور۱۹۹۲ میں مجرمانہ سازش کے الزامات سے متعلق مقدمات کی بھی اجازت دی گئی تھی۔
عرضی میں کہا گیا ’’کشمیری پنڈتوں کے قتل عام سے متعلق عرضی کو مسترد کرتے ہوئے پہلے دیا گیا فیصلہ اور ہدایات اس بنیاد پر نظر ثانی کے مستحق ہیں کہ یہ حکم بے بنیاد تخمینہ پر دیا گیا تھا کہ واقعہ کے حوالے سے کوئی ثبوت دستیاب ہونے کا امکان نہیں ہے۔اس حکم میں اس حقیقت کو مکمل طور پر نظر انداز کردیاگیا ہے کہ سال۱۹۹۶ سے اب تک کچھ ایف آئی آر زیر سماعت ہیں‘‘۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے کہ۱۹۸۹ سے ۱۹۹۸ تک۷۰۰ سے زائد کشمیری پنڈتوں کو قتل کیا گیا اور ۲۰۰ سے زائد مقدمات میں صرف ایف آئی آر درج کی گئی، لیکن کوئی بھی درخواست چارج شیٹ داخل ہونے یا سزا سنانے کے مرحلے تک نہیں پہنچی۔