جموں//
جموںکشمیر کی سرمائی راجدھانی جموں میں کشمیری پنڈت ملازمین نے سڑکوں پر آکر احتجاجی مظاہرئے کئے اور مطالبہ کیا کہ ہندوملازمین کو جموں ٹرانسفر کیا جائے ۔
یو این آئی اردو کے نامہ نگار نے بتایا کہ جموں کے مختلف علاقوں میں کشمیری پنڈت ملازمین نے اپنی مانگوں کو لے کر احتجاجی مظاہرئے کئے ۔
نامہ نگار نے بتایا کہ پیر کی صبح کشمیری پنڈت ملازمین کی ایک بڑی تعداد نے سڑکوں پر آکر احتجاج کیا اور سرکار سے مطالبہ کیا کہ اُنہیں جموں میں ہی تعینات کیا جائے ۔
نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران مظاہرین نے کہاکہ آن لائن دھمکی کے بعد وہ اب کشمیر جانے کو تیار نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کی انتظامیہ کو کشمیر میں تعینات ہندو ملازمین کو جموں ٹرانسفر کرنا چاہئے ۔
انہوں نے بتایا ’’پچھلے چار ماہ سے ہم مسلسل احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں لیکن سرکار کی جانب سے ہماری مانگوں کو پورا نہیں کیا جارہا ہے ‘‘۔
مظاہرین نے مزید بتایا کہ کشمیر میں ٹارگیٹ کلنگ کے واقعات رونما ہونے کے بعد ہندو ملازمین کو پھر سے دھمکی دی گئی ہے لہذا اس سب کو دھیان میں رکھ کر سرکار کو اب ملازمین کے حق میں فیصلہ لینا چاہئے ۔
مظاہرین نے کہاکہ چونکہ لگاتار اُنہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں لہذا اس کو مد نظر رکھتے ہوئے سرکار کو کشمیری پنڈت ملازمین کو جموں میں ہی تعینات کرنے کا فیصلہ لینا چاہئے اور جب حالات پوری طرح سے معمول پر آئیں گے تب وہ وادی میں اپنی خدمات انجام دینے کیلئے تیار ہیں۔
رنجن زوتشی، احتجاج کرنے والے ملازمین میں سے ایک، پیر کو پی ٹی آئی کو بتایا ’’دہشت گرد گروپ پہلے بھی ہمیں دھمکی آمیز خطوط بھیج چکے ہیں، لیکن اس بار انتباہ ملازمین کی فہرست کے ساتھ ہے۔ اس سے نہ صرف احتجاج کرنے والے ملازمین میں بلکہ پوری کمیونٹی میں خوف پیدا ہوا ہے‘‘۔
زوتشی نے کہا کہ تازہ ترین وارننگ کو پروپیگنڈا کے طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ’ان (دہشت گردوں) کے پاس ملازمین کے بارے میں تمام متعلقہ معلومات ہیں‘۔
ناموں کے افشاء کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے، زوتشی نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا ماحولیاتی نظام بہت گہرا ہے اور اسے زیر زمین حامیوں کے خلاف سخت کارروائی کرکے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
زوتشی نے کہا’’حکومت کو یہ معلوم کرنا چاہیے کہ دہشت گردوں کو ایسی اہم معلومات کس نے لیک کیں۔ پولیس کو ایسی چیزوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور ان ملازمین کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے جو اب بھی وادی میں تعینات ہیں‘‘۔
ایک اور ملازم راکیش کمار نے کہا کہ پچھلے ۲۰۸ دنوں سے ان کے مطالبات لا جواب ہیں۔ان کاکہنا تھا’’حکومت ہماری تنخواہیں روک رہی ہے اور دباؤ کے ہتھکنڈے استعمال کر کے ہمیں وادی میں اپنی تعیناتی کی جگہ پر واپس جانے پر مجبور کر رہی ہے۔ ایسی حالت میں ہم واپس جانے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں؟‘‘
کمار نے کہا کہ کشمیری پنڈتوں نے وادی میں اپنی ڈیوٹی پر دوبارہ شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس کا براہ راست تعلق ان کی ’زندگی اور موت‘ سے ہے۔
کمار نے کہا ’’ہم صرف اسی صورت میں کام کر سکتے ہیں جب ہم زندہ ہوں… حکومت کو ہمارے خاندانوں کو بچانے کیلئے ہمیں فوری طور پر دوسری جگہ منتقل کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے خاندان ذہنی اور مالی طور پر بہت زیادہ تکلیف میں ہیں۔‘‘