نئی دہلی//
وفاقی وزیر داخلہ‘ امت شاہ نے بدھ کو کہا کہ جموں کشمیر میں جب حد بندی کا عمل مکمل ہو جائے گا تو سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد فوری انتخابات کرائے جائیں گے۔
دہلی میونسپل کارپوریشن (ترمیمی) بل پر بحث کے دوران کشمیر پر اراکین کی طرف سے اٹھائے گئے خدشات کا جواب دیتے ہوئے شاہ نے لوک سبھا میں کہا’’ہمیں جموں کشمیر کو صدر راج کے تحت رکھنے کا کوئی شوق نہیں ہے‘‘۔
شاہ نے کہا کہ انہوں نے واضح کیا ہے کہ جموں و کشمیر میں پہلے پنچایتی انتخابات ہوں گے، پھر اس کے بعد حد بندی کی مشق ہوگی، جس کے بعد اسمبلی انتخابات ہوں گے، اور پھر جموں و کشمیر کی ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر داخلہ کاکہنا تھا’’پنچایتی انتخابات بغیر کسی تشدد کے ہوئے ہیں۔ ضلع پنچایتی انتخابات ختم ہو چکے ہیں۔ حد بندی تکمیل کے دہانے پر ہے۔ میں ایک بار پھر یہ کہنا چاہوں گا، کہ ایک بار حد بندی مکمل ہونے کے بعد ہم سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد انتخابات کرائیں گے‘‘۔
دہلی میونسپل کارپوریشن (ترمیمی) بل پر بحث کے دوران اپوزیشن ارکان نے حکومت پر جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات میں تاخیر کا الزام لگایا۔
جموں و کشمیر میں جون۲۰۱۸ سے صدر راج نافذ ہے، جب بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ مخلوط حکومت سے واک آؤٹ کیا جس کی قیادت وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کر رہی تھی۔
مودی حکومت نے اگست ۲۰۱۹ میں ریاست کو جموں و کشمیر اور لداخ کے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
جموں و کشمیر، جو اب ایک قانون ساز اسمبلی کے ساتھ ایک مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہے، جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ کے تحت صدر راج کے تحت ہے۔
وزیراداخلہ نے کہا کہ پچھلے دس برسوں کے تجربہ کے باریک تجزیہ اور حقائق کے پیش نظر حکومت نے دہلی کے تینوں کارپوریشنوں کے انضمام کا فیصلہ کیا ہے ۔
شاہ نے دہلی کارپوریشن بل۲۰۲۲پر غور اور اسے پاس کرنے کیلئے رکھتے ہوئے کہا کہ جب دہلی میونسپل کارپوریشن کو تقسیم کیا گیا تو ترمیم اور فرائض کو بغیر دیکھے اس کے تین حصے کردئے گئے ۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ میونسپل کارپوریشن کی تقسیم کے پیچھے کوئی واضح مقصد اور وجہ نہیں تھی اس لئے ممکن ہے کہ تب اس فیصلے کے پیچھے سیاسی منشا رہی ہو۔انہوں نے کہا’’اس تقسیم کی وجہ سے ایک میونسپل کارپوریشن تو فائدے میں رہا لیکن دو دیگر پر فرائض کا بوجھ زیادہ رہا لیکن ریونیو کم ہوگیا۔یہ تقسیم جلد بازی میں کی گئی تھی‘‘۔
شاہ نے کہا کہ پچھلے دس برسوں کا ریکارڈ دیکھیں تو تینوں کارپوریشنوں میں یکسانیت نہیں ہے اور تینوں کارپوریشن الگ الگ پالیسیوں سے چلائے جارہے ہیں۔’’ہر کارپوریشن کواختیار ہے کہ وہ اپنے کارپوریشن کو چلانے کی پالیسی اپنے حساب سے طے کرسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے ملازمین میں بھی اس بات کے سلسلے میں عدم اطمینان کا احساس پیدا ہوتا ہے ۔‘‘