نیویارک//
معروف امریکی کمپنی ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے بانی ایلون مسک کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نہیں بننا چاہتے۔
ایلون مسک پر ان کی کمپنی ٹیسلا کے شیئر ہولڈر رچرڈ جے ٹورنیٹا نے الزام لگایا کہ اُنہوں نے کمپنی میں بطور سی ای او حد سے زیادہ معاوضہ وصول کیا۔
ایلون مسک نے امریکی عدالت میں اس کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ ’درحقیقت، میں کسی بھی کمپنی کا سی ای او نہیں بننا چاہتا‘۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ٹوئٹر کے چیف عارضی طور پر بنے ہیں اور جلد ہی وہ سوشل میڈیا کمپنی کو چلانے کے لیے ایک نیا لیڈر تلاش کرلیں گے۔
اُنہوں نے امید ظاہر کی کہ اس ہفتےٹوئٹر میں انتظامیہ کی تنظیم نو مکمل ہو جائے گی۔
اُنہوں نے کہا کہ’سی ای او کو اکثر ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کی توجہ صرف کاروباری اہداف حاصل کرنے پر ہوتی ہے لیکن میرا کردار کمپنی میں ایک انجینئر کا ہے جو ٹیکنالوجی کو ترقی دیتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہم مزید جدید ٹیکنالوجی تیار کریں اور یہ بھی کہ ہمارے پاس ناقابلِ یقین انجینئرز کی ایک ٹیم ہو جو یہ مقاصد حاصل کر سکتی ہو‘۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ’یہ میرا تجربہ ہے کہ اچھے انجینئرز صرف ایک عظیم انجینئر کے لیے کام کریں گے اور یہی میرا پہلا فرض ہے نہ کہ کمپنی کا سی ای او ہونا‘۔
ایک رپورٹ کے مطابق، ٹیسلا بورڈ کے ایک سابق ممبرجیمز مرڈوک کا کہنا ہے کہ ایلون مسک ٹیسلا کمپنی کے سی ای او کے عہدے سے سبکدوش ہونے پر غور کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایلون مسک ایسا اس لیے سوچ رہے ہیں کیونکہ سرمایہ کار ان کی ملٹی ٹاسکنگ کی شاندار صلاحیت سے خوفزدہ ہو گئے ہیں۔
ایلون مسک نے اپنا مؤقف واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’وہ اپنا زیادہ تر وقت جہاں بھی بحران ہو وہاں گزارتے ہیں‘۔
اُنہوں نے اس ہفتےایک ٹوئٹ کیا تھا کہ ’وہ ٹوئٹر کے سان فرانسسکو ہیڈ کوارٹر میں اس وقت تک چوبیس گھنٹے موجود رہیں گے جب تک کہ وہ اس کمپنی کے مسائل کو ٹھیک نہ کر لیں‘۔
یاد رہے کہ ایلون مسک نے حال ہی میں 44 بلین ڈالرز کی ادائیگی کے بعد ٹوئٹر کا کنٹرول سنبھالا، خود کو چیف ایگزیکٹو آفیسر مقرر کیا اور کمپنی کے آدھے عملے کو نوکریوں سے فارغ کردیا اور متعدد نئے پراجیکٹ آئیڈیاز کا آغاز کیا۔