تو صاحب ہوا یوں کہ گروگرام (سابقہ گڑگاؤں) میں کتے کمینے نے ایک خاتون کو کاٹ کھایا … اسے زخمی کردیا ۔خاتون کا علاج کیا گیا ‘ وہ ٹھیک ہو گئی‘ روبہ صحت ہو گئی … لیکن صاحب بات یہیں پر ختم نہیں ہو ئی… بالکل بھی نہیں ہو ئی ۔ خاتون نے تحفظ صارفین کی عدالت کے در پر دستک دی ‘ عدالت سے رجوع کیا … گروگرام کی میونسپل کارپوریشن کیخلاف ایک عدد کیس دائر کیا … اور معاوضہ بھی طلب کیا … مقدمے کی سماعت دو تین ماہ تک جاری رہی اور… اور بالآخر فیصلہ خاتون کے حق میں ہوا…تحفظ صارفین کی عدالت نے گروگرام کی میونسپل کارپوریشن کو حکم دیا کہ وہ متاثرہ خاتون کو ۲ لاکھ روپے معاوضے میں دے … اور کتے کمینے کے کاٹ کھانے پر اس خاتون کو دو لاکھ روپے ملے… خاتون لکھ پتی… معاف کیجئے لکھ پتنی بن گئی …گروگرام سے اب اپنے کشمیر لوٹ آتے ہیں … اور کشمیر میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہاں تو ہر ایک شہری لکھ پتی بن سکتا ہے … ہر ایک شہری بغیر کسی محنت کے راتوں رات لکھ پتی بن سکتا ہے اور… اور اس کیلئے اسے کسی سرمایہ کاری کی بھی ضرورت نہیں ہے‘لکھ پتی بننے کیلئے اسے جس خام مال کی ضرورت ہے وہ یہاں … اپنے کشمیر میں وافر مقدار اور تعداد میں دستیاب ہے… اور مزے کی بات یہ ہے کہ مفت میں دستیاب ہے… بس آپ کے گھر سے باہر نکلنے کی دیر ہے… آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کس علاقے کے کتے کمینے سے زخمی ہونا پسندکریں گے… کتا کمینہ آپ کو زخمی کردے گا… آپ بھی ایک عدد کیس ‘تحفظ صارفین کی عدالت میں دائر کیجئے اور… اورآپ کو بھی عدالت دو لاکھ روپے کا معاوضہ دلائے گی… سرینگر میونسپل کارپوریشن سے دلوائیگی کیونکہ … اللہ میاں کے فضل و کرم اور اس کارپوریشن کی وجہ سے کشمیر میں ‘ سرینگر میں یہ کتے کمینے ہول سیل میں دستیاب ہیں … دستیاب ہی نہیں ہیں‘ بلکہ کیا بوڑھے اور کیا بچے‘ کیا خواتین اور کیا حضرات ‘ یہ بلا لحاظ مذہب و ملت‘رنگ و نسل‘ ذات پات کے اپنی خدمات ہمہ وقت دستیاب رکھنے کیلئے دستیاب ہیں… بس فیصلہ آپ نے کرنا ہے…جگہ اور وقت کا تعین آپ نے کرنا ہے‘آپ جگہ اور وقت کا تعین کیجئے ‘یہ کتے کمینے وہاں موجود ہوں گے … آپ کو کاٹ کھانے کیلئے ‘ زخمی کرنے کیلئے … اور… اور ہاں آپ کو لکھ پتی بنانے کیلئے بھی ۔ہے نا؟