وادی کشمیر میں سردیوںکے ان ٹھٹھرتے ایام میں لوگوں کو جب رگوں میں دوڑنے والے خون کو منجمد ہونے سے محفوظ رکھنے اور بچانے کیلئے گرمی کے معقول بندوبست کی انتہائی ضرورت ہے بجلی کی آنکھ مچولی اور سرکاری اعلان شدہ کٹوتی شیڈول اور خود چیف سیکریٹری ڈاکٹر ارن کمار مہتا کے واضح اور دوٹوک ہدایات کو حاشیہ پررکھ کر اہل وادی کو ذہنی ،جسمانی اور نفسیاتی ٹارچر سے گذارا جارہاہے۔
ابھی چند ہی گھنٹے ہوئے جب محکمہ بجلی کے ارباب اعلیٰ نے میٹر اور غیر میٹر والے علاقوں کے لئے بجلی کے ایک نئے شیڈول کا اعلان کیا۔ اس اعلان کا اطلاق ۱۵؍ نومبر سے ہوتا لیکن خود ۱۵؍ نومبر کی صبح طلوع ہوتے ہی بہت سارے میٹر ڈ علاقوں کی بجلی سپلائی منقطع کردی گئی اور جب سپلائی بحال کی گئی تو رات کا گہرا اندھیرا ان علاقوں کے لوگوں کی سروں پر سایہ فگن ہوچکاتھا۔ پھر ۱۶؍ نومبر کی ایک اور صبح طلوع ہوئی تو ۱۲؍ بجتے بجتے ان علاقوں میں بجلی کی آنکھ مچولی کا وہی پرانا کھیل شروع کردیاگیا۔ وادی کے دوسرے علاقوں باالخصوص غیر میٹرڈ علاقوں میں بجلی سپلائی کی صورتحال کیا رہی اس بارے محض قیاس ہی کیاجاسکتاہے۔ البتہ صورتحال میٹرڈ والے علاقوں سے ابتر ہی ہوگی۔
آنکھ مچولی کا یہ کھیل کب ختم ہوگا اور سپلائی کے تعلق سے کب اس روایت کاخاتمہ ہوگا کچھ کہنا ممکن نہیں البتہ یہ مبالغہ آرائی نہیں کہ کشمیرکیلئے یہ صورتحال ایک مستقل درد سر ہے۔ کیونکہ کشمیر کے پانیوں پراین ایچ پی سی کو بالادستی اور مکمل کنٹرول حاصل ہے بجلی گھروں کی ملکیت بھی اسی جیسے اداروں کے پاس ہے، جو بجلی جموں وکشمیر کے بجلی گھروں سے پیداوار کی صورت میں حاصل کی جارہی ہے اور جس پیداوار کی بُنیاد جموں وکشمیر کے دریائی پانیوں کے استعمال پر ہے اس پیداوار کا فائدہ ملک کی آبادی کا ایک اچھا خاصہ حصہ اُٹھارہا ہے جنہیں شمالی گرڈ سے بجلی سپلائی کی جارہی ہے۔
اس مخصوص تناظرمیں یہ بات نا قابل فہم ہے کہ محکمہ بجلی کے اعلیٰ حکام جن میں سے اکثریت تربیت یافتہ انجینئروں پر مشتمل ہے کیوں اس تکلیف دہ اور ناقص بجلی سپلائی کے نظام کو درست نہیں کرپارہے ہیں جبکہ دہائیوں سے کشمیرکے لوگ چیخ رہے ہیں کہ بجلی کے حوالہ سے ان کے ساتھ انصاف کیاجائے۔ کیوں سردیوں کی آمد آمد کے ساتھ ہی بجلی منظر سے غائب کردی جاتی ہے جبکہ جموں خطے کے لوگوں کو ایسی تکلیف دہ صورتحال کا سامنا گرمیوںکے شدت بھر ے ایام میں کرنا پڑرہاہے۔ کیا یہ صورتحال بحیثیت مجموعی جموں اور کشمیر دونوں خطوں کے عوام کیلئے ذہنی، فکری ، جسمانی اور نفسیاتی ٹارچر کے متراد ف نہیں!
یہ منظرنامہ محکمہ بجلی کے حکام کی معذرت خواہانہ طرزعمل کا نتیجہ ہے ، ان کی نااہلیت یا کسی اور مجبوری کا شاخسانہ جو کچھ بھی ہے یہ بات ظاہر ہے کہ جموں وکشمیر کو اس تکلیف دہ صورتحال میں مبتلا کرنے کی راست ذمہ دار این ایچ پی سی ہے جس کو پروجیکٹوں ، پیداوار اور پانیوں پر اجارہ داری حاصل ہے۔
ماضی قریب میں اس کی تحویل سے دو بجلی پروجیکٹ جموںوکشمیر کی تحویل میں لینے کی بات چلی، معاوضہ کے ادائیگی کے حوالہ سے سرمایہ بھی محفوظ اور مخصوص کردیاگیا لیکن این ایچ پی سی کے ایک اعلیٰ آفیسر کی اس دھمکی کہ اگر جموںوکشمیر حکومت نے بجلی گھروں کی واپسی کیلئے کوئی پہل کی یامرکزی سرکار پر دبائو ڈالا تو اس صورت میں سنگین نوعیت کا خمیازہ ریاست کو بھگتنا ہوگا۔ اس دھمکی کے بعد اس وقت کی سویلین سرکار نے ہاتھ پیچھے کرلئے اور قدم بھی روک لئے، نتیجہ یہ کہ بجلی گھروں کی تحویل کا منصوبہ زمین بوس ہوا۔
یہ امر بھی حیران کن ہے بلکہ ایک بڑا سوالیہ بھی ہے کہ جو سیاسی پارٹیاں آج تک برسراقتدار رہی ہیں جن میں کانگریس ، بی جے پی، نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی اور وقفے وقفے سے گورنر راج کا نفاذکسی بھی دورمیں اس اشو کو سنجیدگی سے ایڈریس نہیں کیاگیا، البتہ اعلانات پر اعلانات کی لمبی لائن آج کی تاریخ میں ریکارڈ پر ضرور موجود ہے۔ تقریباً دو سال قبل ایک زبردست پروپیگنڈہ مہم چلائی گئی کہ ہائی پاور ٹرانسمیشن لائن کی تنصیب مکمل ہونے کے بعد اب وادی کو بغیر کسی خلل کے ۷x۲۴ بجلی کی سپلائی یقینی بن گئی ہے۔ لیکن وقت کے گذرنے پریہ پروپیگنڈہ بھی گمراہ کن ہی ثابت ہوا۔
اب کہاجارہاہے کہ کچھ نئے بجلی پروجیکٹوں کی تعمیر مکمل ہونے پر جموں وکشمیر میں نہ صرف بجلی بحران ختم ہوجائے گا بلکہ بجلی کی جموںوکشمیر سے باہر فروخت سے معقول آمدنی بھی حاصل ہوگی۔ اعلان اپنی جگہ لیکن سوال بھی اپنی جگہ!یہ بجلی پروجیکٹ ملک کی مختلف کمپنیوں کو الاٹ ہوئے ہیں جن کی تعمیر کیلئے ان پروجیکٹوں کو مختلف نوعیت کی مراعات، سہولیات اور لاجسٹک کے حوالہ سے لوازمات مہیاکئے جارہے ہیں جبکہ جموں وکشمیر کے پانیوں کے استعمال کے عوض جو ادائیگی کمپنیوں کے ذمہ تھی وہ بھی معافی کے زمرے میں ہے۔ رائلٹی کے طور ۱۲؍ فیصد بجلی کی دستیابی کی لازمی شق سے بھی کمپنیوں کو چھوٹ دی گئی ہے۔ یہ منظر نامہ جب تکمیل کے بعد اُبھر کرسامنے آئے گا اس وقت بھی جموںوکشمیر کو بجلی کے بحران کا سامنا ہوگا کیونکہ ان بجلی پروجیکٹوں کی پیداوار شمالی گرڈ کے لئے وقف کردی جائیگی اور شمالی گرڈ سے بجلی حاصل کرنے کیلئے کمپنیوں کی مقررہ نرخوں پر جموں وکشمیرکو بجلی دستیاب رکھی جائیگی۔
یعنی دوسر ے الفاظ میں بجلی کی موجودہ سپلائی پوزیشن اور شمالی گرڈ سے خریداری کے تعلق سے جو معاملات فی الوقت ہیں آنے والے چند برسوں کے بعد جب نئے پروجیکٹ تکمیل پذیر ہوں گے اُس وقت بھی منظرنامہ موجودہ منظرنامہ سے ہی مشابہہ ہوگا۔