تحریر:ہارون رشید
چلئے اب تک … جی ہاں اب تک کی بات کی جائے تو … تو عمران خان صاحب اب کچھ ایک دنوں کے ہی مہمان ہیں … نہیں صاحب !اللہ انہیں لمبی عمر دے‘ ہمارا مطلب ہے کہ بطورپاکستانی وزیر اعظم یہ کچھ دنوں کے ہی مہمان ہیں کہ … کہ تازہ ایک اور ایک دم تازہ خبر یہ ہے کہ خان صاحب کی حکومت نے اکثریت کھودی ہے اور… اور اس لئے کھودی ہے کیونکہ مہاجر قومی مومنٹ نے اپوزیشن اتحاد کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے ۔یقینا ہماری پاکستان میں کوئی دلچسپی نہیں ہے… دلچسپی اگر ہے تو اس ایک بات میں کہ اپنے ملک کشمیر میں کچھ لوگ خان صاحب کے ہمدرد ہیں … اس لئے ہیں کیونکہ خان صاحب بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں … ہر ایک سے ٹکراؤ کی باتیں… ملک میں اپوزیشن سے ٹکراؤ‘ ہمسائیگی میں بھارت سے ٹکراؤ‘ ساتھ سمندر پار امریکہ اور یورپی یونین سے ٹکراؤ… بس خان صاحب کی یہ ٹکراؤ کی سیاست سے ملک کشمیر میں ان کے ہمدرد خوش ہو رہے ہیں اور… اور انہیں اس کیلئے داد تحسین پیش کررہے ہیں اور… اور اس لئے کررہے ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ ٹکراؤ کا مطلب مزاحمت ہے‘ نہ جھکنا ہے اور… اور خان صاحب مغرب اور امریکہ کے سامنے جھک نہیں گئے ۔ہمارے یہاں بھی ایک سیاستدان تھے‘ علیحدگی پسند سیاستدان … وہ بھی اسی ٹکراؤ کی سیاست میں یقین رکھتے تھے… اللہ انہیںمغفرت کرے ‘خود کے علاوہ انہیں باقی سب غدار نظر آتے تھے اور… اور رہی بھارت کی بات تو… تو اس کے ساتھ بات نہ کرنا ہی ان کی سیاست کا محور تھا اور… اور ان کی اس سیاست کو عمران خان صاحب کے یہ کشمیری ہمدرد’ نہ بکاؤ اور نہ جھکاؤ‘ والی سیاست قرار دے کر خوب داد دیتے تھے … لیکن… لیکن ان میں سے کوئی ایک اس قوم کو آج تک یہ نہیں بتا پایا کہ آخر ان مرحوم علیحدگی پسند لیڈر کی اس ٹکراؤ والی سیاست نے ملک کشمیر کو کیا دیا … اس سے ملک کشمیر کو حاصل کیا ہو ا؟اس سے وہ ہدف حاصل ہوا جس حصول کیلئے یہ علیحدگی پسند لیڈر عمر بھر گھر بیٹھ کر’لڑتا‘ رہا …؟خان صاحب کی اس ٹکراؤ والی سیاست نے پاکستان کو کیا دیا ؟عالمی تنہائی ‘ آئی ایم ایف سے اس کی من چاہی شرطوں پر قرضے ‘مہنگائی ‘ ملک میں عدم استحکام ‘ سی پیک میںتاخیر‘بھارت جیسے ہمسایہ کے ساتھ تناؤ اور کشیدگی … لیکن پھر بھی کشمیر میں ان کے ہمدرد انہیں شاباشی دے رہے ہیں… ان کی تعریف کررہے ہیں اور… اور اس لئے کررہے ہیں کیونکہ خان صاحب نے ٹکراؤ والی سیاست کی…ایسی سیاست جس سے ان کا بھلا ہو ا اور نہ ان کے ملک کا ۔ ہے نا؟