الیکشن کا اعلان تو نہیں ہوا لیکن کم وبیش سبھی پارٹیاں الیکشن کی تیاری میں جٹ چکی ہیں، اعلانات ہورہے ہیں، وعدے کئے جارہے ہیں، یقین دہانیوں کے نئے انبار جمع کئے جارہے ہیں، لوگوں کو بُنیادی سہولیات بجلی وغیرہ کے شعبوں کے تعلق سے مالی سبسڈی دینے کی رشوت کی بھی پیشکش کی جارہی ہے جبکہ آئین کی دفعہ ۳۷۰؍ جواب گذشتہ کئی سالوں سے ملک کی عدالت عظمیٰ میں ابتدائی سماعت کے بعد زیرالتوا ہے کی بحالی کیلئے کروڑوں روپے صرف کرنے کا مژدہ بھی سنایا جارہاہے۔
حصول اقتدار کی اس دوڑ میں جموں نشین اور کشمیری نشین لگ بھگ سبھی پارٹیوں کی طرف سے مسلسل اعلان کیاجارہاہے کہ اقتدار ان ہی کی جھولی میں کھجور کی طرح آٹپکنے کیلئے تیار ہے، کوئی اعلان کررہاہے کہ اگلی حکومت ہماری ہوگی اور اگلا وزیراعلیٰ بھی ہمارا ہی ہوگا، کوئی یہ اعلان کررہاہے کہ اقتدار میری جھولی میں ڈالدو تو صلہ میں لوگوں کے وہ سبھی خواب شرمندہ تعبیرکئے جائینگے جو خواب وہ عرصہ سے دیکھ تو رہے ہیںلیکن مراد پوری نہیں ہورہی ہے۔
حصول اقتدار کی اس دوڑ کا سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ لوگوں کو طبقوں، فرقوں، ذاتوں، علاقوں ، زبان ، مذہب ا ور یہاں تک کہ مسلک کی بُنایدوں پر تقسیم درتقسیم کیاجارہاہے۔ا س تقسیم درتقسیم کے نیٹ ورک سے وابستہ صرف کوئی ایک مخصوص جماعت نہیں بلکہ کم وبیش سبھی جماعتیں یکساں طور سے کام کررہی ہیں۔ وہ زمانہ گیا جب جموں وکشمیرکے لوگ ان واہیات سے بالاتر ہو کر اپنی حق رائے دہی کا استعمال کیاکرتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے، بلکہ ذات پات عقیدوں مذہب ،فرقوں اور علاقائی وابستگیوں کی بُنیاد پر ووٹ کے استعمال کا رجحان دیکھاجارہاہے۔
یہ رجحان مجموعی ترقی کی راہ میں نہ صرف نقصان دہ ثابت ہورہاہے اور ہو بھی سکتاہے بلکہ علاقائی سالمیت، آپسی برادرانہ تعلقات اور آپسی روابط کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ بھائی چارہ کیلئے بھی سم قاتل ثابت ہوسکتاہے ۔ بلکہ اس کے آثار اب بتدریج واضح طور سے مطلع پر منڈلاتے دیکھے بھی جاسکتے ہیں۔اس تقسیم درتقسیم کا سارا کریڈٹ مختلف نظریات کی حامل سیاستدانوں اور ان کی پارٹیوں کے سر ہے جو نہیں چاہتے کہ عوامی سطح پر بھائی چارہ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا رشتہ اور جذبہ بنارہے کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں وہ خود کو مختلف پہلوئوں کے تناظرمیں کمزور محسوس کرتے رہے ہیں۔ اگر چہ سیاستدانوں کے سبھی قبیلے آپسی برادرانہ اور رواداری سے عبارت تعلقات کو یقینی بنانے کیلئے واعظ وتبلیغ دیتے رہتے ہیں لیکن ان کا باطن کچھ اور ہی ایجنڈا کا حامل ہے جو ایجنڈا سیاہ وسفید کی صورت میں کسی کاغذ پر لفظوں کی شکل میں لکھا نہیں ، بس اس ایجنڈا کو سینہ بہ سینہ دوسروں تک پہنچایا جارہاہے۔
رائے دہندہ گان کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے سیاسی پارٹیاں جو جتن کرتی نظرآرہی ہیں اور جووعدے وہ لوگوں سے کرتی نظرآرہی ہیں جمہوری طرز سیاست میں انہیں ایسا کرنے کی کھلی چھوٹ اور آزادی ہے لیکن عوا م کو جن دوسرے سنگین نوعیت کے معاملات نے بے حد پریشان کررکھا ہے،ان کے دن کا چین اور رات کا سکون چھین لیاہے ، ذہنی الجھنوں اور پریشانیوں میں مسلسل مبتلا کررکھا ہے، معاشرتی، اقتصادی اورز ندگی کے دوسرے شعبوں کے حوالوں سے جس ابتر صورتحال سے وہ جھوج رہے ہیں، تعجب ہے کوئی سیاسی پارٹی اور کوئی قد آور یا چھوٹے قد کا سیاسی لیڈر ان اشوز کو زبان نہیں دے رہاہے۔ بس بیان بازی ہورہی ہے ۔ سیاسی نوعیت کے کچھ پیغامات دیئے اور پہنچائے جارہے ہیں جن پیغامات کا مقصد ان سیاستدانوں اور پارٹیوں کے اپنے مفادات کے حصول اور تحفظ سے ہوتا ہے لیکن آڑ لوگوں کی لی جارہی ہے۔
تعجب تو اس بات پر بھی ہے کہ اوسط شہری کے بینک اکائونٹ میں دو لاکھ روپے محنت اور عرق ریزی کے بھی آجائیں تو اندرون خانہ پوچھ اور محاسبہ کے دفاتر کھول دیئے جاتے ہیںلیکن سیاسی جماعتیں اپنی سرگرمیوں ، پبلک اجتماعات کے انعقاد، ان اجتماعات کیلئے لوگوں کے آنے لے جانے کے لئے گاڑیوں کا استعمال، کھانے پینے کے انتظامات وغیرہ کیلئے جو سرمایہ پانی کی طرح بہایا جارہاہے اس کا محاسبہ کیوں نہیں؟ آئین کی دفعہ ۳۷۰؍ کی بحالی کیلئے سپریم کورٹ میں وکلاء کی خدمات حاصل کرنے کیلئے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کے اعلانات اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کروڑوں کا سرمایہ کہاں سے آیا؟ کون ان جماعتوں کی فنڈنگ کررہاہے۔ کیایہ فنڈنگ منی لانڈرنگ کے زمرے میں نہیں آتی؟
بہرحال لوگ بھی چاہتے ہیں کہ اسمبلی وجودمیں آجائے، سیلف رول نافذ العمل اور قابل عمل بنایاجائے، ریاستی درجہ بحال کیاجائے لیکن ان سبھی معاملات کے تعلق سے اہم سوال یہی ہے کہ اسمبلی وجود میں آجاتی ہے، حکومت کو بھی وجود بخشاجائے گا لیکن ان کو کون سے اختیارات حاصل ہوں گے جن کی بُنیاد پر وہ قانو ن سازی کرپائیں اور جو وعدے یہ لوگ عوام سے آئے روز کررہے ہیں ان کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ سارے اختیارات تو دہلی کے پاس ہیں۔
اس مخصوص تناظرمیں اولین ترجیح اس بات کی ہونی چاہئے کہ پہلے ریاستی درجہ کی بحالی کو یقینی بنایاجائے، پھر اختیارات اور قانون سازی کی سمت میں اقدامات کئے جانے چاہئے، جموں وکشمیر میں پڑھے لکھے اور ہنریافتہ بے روزگار افراد کا شرح تناسب تقریباً ۲۳؍ فیصد کی دہلیز پر دستک دے رہاہے جبکہ ملکی سطح ُپر یہ شرح تناسب ۷؍فیصد کے قریب ہے، انڈسٹریل سیکٹر کی بات کریں تو پنجاب کی سرزمین سے وابستہ صنعت کار اورکارخانہ دار اب جموں کی طرف رُخ کررہے ہیں، کشمیرخالی ہاتھ پھیلائے منتظر ہے یہ اور دیگر کئی ایک معاملات ہیں جو توجہ طلب ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کی خالی نعرہ بازی کسی کام کی نہیں اور بے اختیار حکومت اور اسمبلی کا ہونا یا نہ ہونا کسی اہمیت کا حامل نہیں!