سرینگر//(ویب ڈیسک)
سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے نے نہ صرف ہمسایہ ملک کو مزید گہرے انتشار میں ڈال دیا ہے بلکہ ہندوستان کے لیے نئے اسٹریٹجک عوامل کو جنم دیا ہے، جن میں پاکستان کی طاقتور فوجی اور انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کے مستقبل سے لے کر اس کے سیاسی استحکام تک۔
نئی دہلی میں حکام نے این ڈی ٹی وی کو بتایا ہے کہ جہاں پاکستان کی فوج اندرونی انتشار پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہے، وہیں سرحدی علاقوں میں بھارت کیلئے ایک راحت ہے‘ اس کے علاوہ نئی دہلی ہمسایہ ملک میں ’انتہائی نازک‘ داخلی امن و امان کی صورتحال پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔
ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعویٰ کیا کہ نئی دہلی تک پہنچنے والی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج میںاندرونی لڑائی نے ’اس کے ڈھانچے کو گہرے طور پر کمزور کر دیا ہے‘ اور اس کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ خود فائر فائٹنگ میں ملوث ہیں۔
افسر نے کہا کہ جنرل باجوہ آرمی چیف کے طور پر دوسری تین سالہ مدت کے بعد۲۹ نومبر کو ریٹائر ہونے والے ہیں، لیکن شاید ابھی اقتدار پر اپنی گرفت نہیں چھوڑیں گے۔
سینئر سرکاری اہلکار نے این ڈی ٹی وی کو بتایا’’حالیہ دنوں میں فوج کے خلاف مظاہرے پہلی بار ہوئے ہیں۔ فوج ملک پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور موجودہ حالات میں، باجوہ بھی فوجی سربراہ کے طور پر جاری رہ سکتے ہیں‘‘۔
اہلکار کے بقول، پاکستان کی فوج اور سیاست دونوں میں ہنگامہ آرائی بھارت کیلئے ’اچھی خبر‘ ہے، کیونکہ وہ کچھ وقت کیلئے’راحت کا سانس‘ لے سکتا ہے۔
پاکستان کے معاملات کو سنبھالنے والے اہلکار نے کہا’’پاکستان کو اپنی تقسیم اور مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے … فوج میں بھی اور سیاسی سطح پر بھی۔ دونوں وہاں کی معاشی بدحالی کی وجہ سے بدصورت رخ اختیار کر رہے ہیں۔ ہمارے لیے تو ہم کچھ وقت کے لیے سکون کا سانس لے سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنے مسائل میں مصروف ہوں گے‘‘۔
ایک اور ذریعہ نے بتایا کہ دہلی پہنچنے والی رپورٹس پاکستان کے اندر عمران خان پر حملے پر بڑھتے ہوئے اختلاف کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔
ہندوستانی سیکورٹی ایجنسیوں کے ایک جائزے کے مطابق، حملے سے متعلق سوالات اس حقیقت کی بنیاد پر اٹھائے جا رہے ہیں کہ یہ صوبہ پنجاب میں ہوا جہاں خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکمران جماعت ہے اور اس کے وزیر داخلہ ہیں‘جو عمران خان کے لانگ مارچ میں ان کے ستاتھ تھے ۔
ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار نے کہا’’سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کس قسم کے ’انتظام‘ (انتظامات) کیے گئے، حالانکہ پاکستان میں سپاری (کنٹریکٹ) کی ہلاکت کوئی نئی بات نہیں ہے‘‘۔ان کے مطابق خان نے حملے کے بعد زبردست مقبولیت حاصل کی ہے۔انہوں نے کہا ’’عمران اسٹیبلشمنٹ کیلئے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے، اور وہ جیت جائیں گے اگر انتخابات جلد ہی منعقد ہوں اور اگر وہ آزادانہ اور منصفانہ ہوں‘‘۔
اہلکار نے اس کے پیچھے ایک نظریہ بھی شیئر کیا کہ کیوں عمران خان نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصادم میں، طاقت کے مظاہرے کے طور پر بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کے راستے کا انتخاب کیا، حکومت کو مؤثر طریقے سے مفلوج کیا، اور ممکنہ طور پر گرنے کی انجینئرنگ کی۔
افسر نے کہا’’پاکستان میں ہر کوئی جانتا ہے کہ عمران اپنے سرپرست لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، کور کمانڈر، بہاولپور، کو اگلا آرمی چیف بنانا چاہتے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے عمران کیلئے‘ وہ اگلے سال۳۰؍ اپریل کو ریٹائر ہو رہے ہیں‘‘۔
پاکستان ڈیسک کو سنبھالنے والے بھارتی حکام کا دعویٰ ہے کہ اگر جنرل باجوہ اب آرمی چیف کے عہدے پر برقرار رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، جو دعویداروں میں سب سے سینئر ہیں اور اس وقت جی ایچ کیو میں کوارٹر ماسٹر جنرل کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، کے بہترین امکانات ہیں کہ وہ اگلے چیف آف آرمڈ سٹاف بننے ۔
ایک اہلکار نے کہا’’منیر اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی (پاکستانی جاسوسی ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل) تھے جب عمران وزیر اعظم تھے، اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی رپورٹس نے عمران کو ناراض کیا تھا، اس لیے موجودہ حکومت ان پر بھی غور کر سکتی ہے۔‘‘