سرینگر//(ویب ڈیسک)
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس کے سربراہ‘ موہن بھاگوت نے آج کہاکہ ہندو راشٹر کے تصور کو اب سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
بھاگوت نے آج ناگپور میں آر ایس ایس کی دسہرہ ریلی میں کہا’’اب جب سنگھ کو لوگوں کا پیار اور اعتماد مل رہا ہے اور وہ مضبوط بھی ہو گیا ہے‘ ہندو راشٹر کے تصور کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔‘‘
آر ایس ایس سربراہ نے کہا’’بہت سے لوگ اس تصور سے متفق ہیں، لیکن لفظ ’ہندو‘ کے مخالف ہیں اور وہ دوسرے الفاظ استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تصور کی وضاحت کیلئے ‘ ہم اپنے لیے لفظ ہندو پر زور دیتے رہیں گے۔‘‘
بھاگوت نے کہا کہ ادے پور اور امراوتی جیسے واقعات(جہاں ایک درزی اور ایک فارماسسٹ کو بی جے پی کے معطل ترجمان نوپور شرما کی حمایت کرنے کے بعد مار دیا گیا تھا) کو دہرایا نہیں جانا چاہئے۔انہوں نے مزید کہا کہ مجموعی طور پر ایک خاص کمیونٹی کو ان واقعات کی بنیادی وجہ نہیں سمجھنا چاہئے۔
بھاگوت نے کہا کہ حال ہی میں ادے پور اور کچھ دیگر مقامات پر ’خوفناک اور اندوہناک واقعات‘ پیش آئے جنہوں نے معاشرے کو دنگ کر دیا جس سے زیادہ تر لوگوں کو غمزدہ اور غصہ آیا۔
آر ایس ایس سربراہ کاکہنا تھا کہ ادے پور کے واقعہ کے بعد مسلم سماج کے چند سرکردہ افراد نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کا یہ انداز مسلم معاشرے میں الگ تھلگ نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ ان کے بڑے طبقات کی فطرت بن جانا چاہیے۔انہوں نے کہا’’عام طور پر ہندو سماج ایسے واقعات کے بعد اپنے احتجاج اور سخت رد عمل کا اظہار کرتا ہے، چاہے ملزم ہندو ہی کیوں نہ ہوں‘‘۔
بھاگوت نے آبادی کے عدم توازن پر فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان نے تاریخ میں آبادی کے بگڑے ہوئے توازن کے سنگین نتائج برداشت کئے ہیں۔ انہوں نے آبادی کے اضافہ پر قدغن لگانے کے لئے ایک وسیع تر پالیسی تیار کرنے کی اپیل کی اور سماج کے تمام طبقات کو اس پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ تبدیلی مذہب اور دراندازی سے آبادی کا توازن درہم برہم ہو رہا ہے، جو انتہائی تشویش کا باعث ہے۔
آر ایس ایس سربراہ نے کہا کہ آبادی کے عدم توازن کی وجہ سے دنیا کے کئی دوسرے ممالک بھی ٹوٹ گئے اور ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان اور کوسوو اس کی مثال ہیں۔
بھاگوت نے مطالبہ کیا کہ حکومت آبادی پر ایک جامع کنٹرول پالیسی تیار کرے۔ انہوں نے کہا ’’آبادی کی پالیسی کو سنجیدگی سے غور و فکر کے بعد تیار کیا جانا چاہیے اور اسے سب پر نافذ کیا جانا چاہیے۔ اس جامع پالیسی سے کسی کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا جانا چاہیے‘‘۔
آر ایس ایس سربراہ نے ملک میں خواتین کو بااختیار بنانے کی بھی پرزور وکالت کی اور کہا کہ مرد اور عورت ہر پہلو اور احترام میں برابر ہیں، ان میں یکساں صلاحیتیں موجود ہیں۔