معاشرے کو درپیش گوناگوں مسائل کا وقت پر اور پوری سنجیدگی کے ساتھ حل تلاش نہ کیاگیا تو معاشرہ کا ہر پرزہ تقریباً نہ صرف تنزل کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے بلکہ اخلاقی سطح پر بھی مختلف نوعیت برائیوں اور بدیوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ بے راہ روی، غیر ذمہ دارانہ اندازفکر، بے اعتنائی غالب آجاتی ہے جبکہ سب سے بڑھ کر آنکھوں کا پانی تک خشک ہوجاتاہے۔
کشمیرکے معاشرے اور معاشرتی مسائل پر محض سرسری نگاہ ڈالی جاتی ہے تو کچھ ایسے پہلو اُبھر کرسامنے آجاتے ہیں جنہیں دیکھ کر نہ صرف اوسط سوچ پر یاسیت کے بادل مسلط ہو جاتے ہیں بلکہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر غیرت اور حمیت کے تعلق سے کچھ بڑے سوال بھی ذہن میں اُبھرکربے چینی کاموجب بن جاتے ہیں۔
ماناکہ بے کاری اور بے روزگاری کا عالم ہے، ذرائع آمدن ہر گذرتے روز کے ساتھ گھٹتی جارہی ہے ، وسائل سکڑتے جارہے ہیں ، روزمرہ کے معاملات کا دائرہ بھی سمٹتا جارہا ہے، جبکہ ان کے علاوہ بھی کچھ دوسرے معاملات ہیںجو پریشان کن ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کشمیرکا معاشرہ ان معاملات ، درپیش چیلنجوں اور پریشانیوں کے آگے سرنڈر کرکے اپنی بے بسی کا اعلان کرے۔
ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے سے ہی ان کا قلع قمع کرکے زندگی کے سفر کو آگے بڑھانے کے راستے ہموار کئے جاسکتے ہیں ۔ سرنڈر کرکے گھروں کی چار دیواریوںکے اندر سہم اور دبک کر بیٹھنے کو ترجیح دے کر کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی معاشرے کو درپیش کسی بھی ایک مسئلے کا حل تلاش کیا جاسکتاہے۔ ان معاملات یا چیلنجوں کا حل سڑکوں پر آکر ’ہم انصاف چاہتے ہیں یا ہم کیا چاہتے ہیں‘ کی نعرہ بازی یا سینہ کوبی کا راستہ اختیار کرنے سے بھی ممکن نہیں ہے۔ دُنیا کی قوموں کو ایسے یا ان سے ملتے جلتے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن ان قوموں نے نہ بے بسی سے کام لیا اور نہ ہی مجبور ہوکر ان کے آگے سرنڈر کرلیابلکہ نئے وسائل اور راستے تلاش کرکے اپنی ان پریشانیوں ، چیلنجوں اور معاشرتی مسائل کا حل تلاش کرکے باوقار زندگی گذارنے کا راز جان لیا۔
معاشرتی چیلنج اور مسائل کی تعداد چند نہیں بلکہ بہت سارے ہیں۔ کچھ حساس اور پیچیدہ نوعیت کے ہیں، کچھ انفرادی نوعیت کے ہیں جبکہ کچھ اجتماعی نوعیت کے ہیں۔ لیکن جو بھی مسائل اور معاملات ہیں ان کا حل تلاش کرنے کیلئے سنجیدگی بھی درکار ہے اور ذمہ دارانہ عجلت بھی ۔
ان حساس نوعیت کے مسائل میں سن بلوغت کی دہلیزوںکو پار کرنے والے لڑکے لڑکیوںکی ان گنت آبادی جن کے ہاتھ مہندی کو ترس رہے ہیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ والدین اپنی کم آمدن، قلیل وسائل کے ساتھ ساتھ دوسرے وہ اختراعی مسائل جو خود معاشرے کی پیداوار ہیں کے پیش نظربیٹیوں کے رشتے طے نہیں کرپارہے ہیں۔ اس حوالہ سے ابھی چند گھنٹے قبل سرینگر اور جموں میںمنعقدہ اجتماعی نکاح خوانی کے حوالہ سے دو اہم مجالس کے اہتمام وانعقاد کی خبر نظروں میںآگئی۔ ان مجالس میں بحیثیت مجموعی پچاس کے قریب نکاح ہوئے۔ ان مجالس کا اہتمام جن حضرات یا ان سے وابستہ رضاکارتنظیموں نے کیا ہے وہ ’’ہماری سلام ’’ کے مستحق ہیں اور اللہ تعالیٰ سے یہی دست بدست عاجزی کے ساتھ دُعا ہے کہ وہ ان کا بہتر اجر عطاکرے اورانہیں ایسے مجالس مستقبل قریب میں بھی منعقد کرانے کی توفیق کے ساتھ ساتھ وسائل عطاکرے تاکہ معاشرے کو درپیش یہ اہم مگر سنگین مضمرات کا حامل مسئلہ اور چیلنج حل ہوسکے ۔
ان دونوں مجالس کے منتظمین کا یہ عزم اور حوصلہ قابل تعریف بھی ہے اور قابل تحسین بھی ہے۔ ان سے حوصلہ اور شہ پاکر کچھ اور حساس ذمہ دار بھی اگر میدان میں آجائیں تو معاشرے کو درپیش بہت سارے مسائل حل ہوں گے جس کے نتیجہ میں نہ صرف معاشرے میں سرائیت کرتی جارہی بدیاں، برائیاں، خامیاں، بدعات اور رسومات کا چلن بتدریج ختم ہو جائے گا بلکہ معاشرے کی اعلیٰ اقدار کے تئیں واپسی کا عمل بھی جڑ پکڑ پائے گا۔
ان مجالس کے منتظمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیرمیں تقریباً ۴۵؍ ہزار لڑکیاں اور ۳۵؍ہزار لڑکے اپنی ازدواجی زندگی کا سفر شروع کرنے سے قاصر ہیں۔ لیکن ہمارے خیال میں تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے ۔ لیکن اگر صرف اسی تعداد کو حرف آخر تصور کیاجائے تو بھی یہ پُر تشویش ہے۔ بہرحال جہاں اقتصادی بدحالی اور دیگر کچھ وجوہات رشتے طے کرنے کی راہوں میںحائل ہیں وہیںکشمیر کے مسلم معاشرے نے از خود جو لکیریں کھینچ کررکھی ہیں، جن بتوں کو گھرانوں اور خاندانوں کے اندر ذات ، پات ، رنگ ، نسل ، لسانیات اور کلچر کے خولوں میں رکھ کر سجائے رکھا ہے وہ بھی رشتوں کو طے کرنے کی راہ میں حائل ہیں۔سماجی بدعات، اختراعی روایات اور ان کی اندھی تقلید، جہیز کے نام پر استحصال اور لٹیرانہ اندازفکر، نام ونمود، استعداد سے کہیں زیادہ مہر کا تقاضہ ،چراغان اور وازوان پر لاکھوں کے اخراجات، دولہے کے آگے پیچھے گاڑیوں کا کاروان، مغربی طرز کی تقلید میںناچ گانے کی محافل کا انعقاد بھی کشمیر کے مسلم معاشرے کا اس حوالہ سے منہ چڑارہا ہے اور تکذیب کررہاہے کہ جو سرزمین سکون قلب وجگر سے محروم ہو اس سرزمین پر ان بدعات اور رسومات کی پیروری معاشرے کی بے حسی اور خود فریبی نہیں تو اورکیا ہے؟
کشمیر کے معاشرے کو جن دوسرے چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں منشیات اور نشہ آور ادویات کا بڑھتا استعمال اور مارکیٹ میںان کی دستیابی اس حوالہ سے سرفہرست ہے کہ اگر اس وبا پر فوری طور سے قابو نہیں پایا جائے گا تو کشمیر کا معاشرہ محض آنے والے چند برسوں کے دوران ہی میکسکو ایسے خطوں کو اپنے پیچھے چھوڑ جائے گا۔ ۸۰؍ لاکھ نفوس کی آبادی میںزائد از چھ لاکھ نوجوان نسل کا منشیات کا استعمال، جبکہ گنتی جاری ہے، کیا فکر وتشویش کا موجب نہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ کشمیرکی سول سوسائٹی ، کشمیرکا دانشور طبقہ، اس حوالہ سے خاموش کیوں ہے؟ مانا کہ کچھ سیاسی نوعیت کے معاملات کے تعلق سے وہ جرأت سے محروم ہیں لیکن جو معاملات اور برائیاں پورے سماج کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں اس پران کی بے اعتنائی ، خاموشی کیا مجرمانہ نوعیت کی نہیں؟خاص طور ان والدین جو اپنی بے محنت اور کورپشن کی بدولت حاصل اپنی دولت کو اپنے بگڑے بچوں کے ہاتھوں پر رکھ کر ان سے ان کے مصرف پر کوئی سوال نہیں کررہے ہیں اصل میں سب سے زیادہ اور بڑھ کر کشمیر ی معاشرے کے مجرم اور دُشمن ہیں۔