پاکستان کا ایک تہائی غرق آب ہے۔ ناسا کے مطابق ایک سو مربع کلو میٹر جبکہ برطانوی ماہرین کے مطابق برطانیہ کے برابر پاکستان زیر آب ہے۔ زائد از ۱۲ سو شہری اب تک لقمہ اجل بن چکے ہیں، خوراک کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے ، بیماریاں پھوٹ پڑ رہی ہیں لیکن بیماریوں سے مقابلہ کرنے کیلئے مطلوبہ ادویات دستیاب نہیں، مہنگائی کا دیو رہی سہی کسر پوری کررہا ہے ، تقریباً چار کروڑ لوگ بے گھر ہوکر سڑکوں ، گلی کوچوں اور کھیتوں جو فی الوقت تک سیلاب سے محفوظ ہیں کسمپرسی اور فاقہ کشی کی زندگی بسر کررہے ہیں، نہ خیمے ہیں، نہ چھت ہے اور نہ پیٹ کا دوزخ بجھانے کیلئے خوراک۔
یہ قہر ہے ، موسمیاتی تبدیلی کا بھیانک چہرہ، یا کچھ اور… فوری طور سے صحیح صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا البتہ اس نوعیت کی صورتحال تو عموماً مکافات عمل کا ہی ایک تسلسل خیال کیا جاتا ہے ۔ عالمی سطح پر امداد کی فراہمی اور متاثرین تک پہنچنے کے حوالہ سے کچھ حرکت تو نظر آرہی ہے لیکن خود پاکستان کا سیاسی اور انتظامی منظر نامہ ایک ایسے ناکام منظر نامے کی تصویر کشی کررہا ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس وقت جبکہ کروڑوں لوگ بچے ، بوڑھے ، خواتین ، جو ان کسمپرسی کی حالت میں موت و حیات کی جنگ لڑرہے ہیں پاکستان کا سیاسی لینڈ سکیپ سیاستدانوں کی سیاہ کاریوں ابن الوقتی ، بدترین موقع پرستی اور بدبختانہ انداز فکر اور اپروچ سے عبارت نظر آرہا ہے ۔
جس ملک میں اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں ہر ۲۴ گھنٹے بعد ۱۵۔۲۰ فیصد شرح تناسب سے اضافہ کا عمل جاری ہو، جس ملک میں اب پینے کے لئے پانی کا گھونٹ بھی دستیاب نہ ہو، اس ملک کے بارے میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یہی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے سیاست دانوں اور ان کی زیر سرپرستی میں پرورش پاتی رہی انتظامیہ نے اپنے کورپٹ، بدعنوان اور استحصال سے عبارت طریقہ کار کو پروان چڑھا کر اپنے ملک کو عالمی نقشے پر نہ صرف ایک بھکاری ملک بنا دیا بلکہ ہر اعتبار سے ایک ناکام سٹیٹ کے اعزاز سے بھی سرفراز کردیا ہے ۔
موجودہ حالات جبکہ تقاضہ یہ کررہے ہیں کہ سیلابی قہر سے جھوج رہے لوگوں تک امداد پہنچائی جائے، مختلف سیاسی اور مذہبی مکتبوں اور فکروں سے وابستہ لوگ ، ادارے اور رضاکار سیاسی وابستگیوں ، وفاداریوں اور مسلکی رشتہ داری کی بنیاد پر امداد تقسیم کررہے ہیں۔ راحت کاری کے نام پر یہ طریقہ کار اور طرز عمل ناکام سٹیٹ کا ہی طرئہ ہوسکتا ہے۔ اس ناکامی کی مثال اس سے بڑھ کر اور کیا پیش کی جاسکتی ہے کہ امدادی کاموں کیلئے متعین سرکاری کارندے متاثرین سے پہلے اپنا کمیشن وصول کررہے ہیں۔ ایسے ملک کا سیاسی اور حکومت چہرہ جب اس حد تک کورپٹ اور بدعنوان ہو، لٹیرانہ اور استحصالانہ طرز عمل روز کا معمول بنایا جارہا ہو، اخلاقیات ، تہذیب اور شائستگی کا قدم قدم پر جنازہ برآمد کیا جارہا ہو اور جنازے برآمد کرنے میں ملک کی خودساختہ صف اول کی قیادت (سیاستدان) خود سرپرستی کررہے ہوں اُس ملک کا ناک نقشہ ناکامی ، انتشار اور عدم استحکام سے عبارت نہ ہو تو اور کیا ہو؟…!
متاثرین تک پہنچنے اور امداد کی تقسیم کے حوالہ سے پاکستان کے ایک زبان دراز سیاستدان جو آرمی کی سرپرستی اور آرمی کے لئے مخصوص فنڈز کے ایک حصے کو تقسیم کرکے ممبران اسمبلی کی خرید و فروخت کی بدولت وزیراعظم کی کرسی تک پہنچ گیااپوزیشن اتحاد پر مشتمل حکومت کو چلینج کررہا ہے کہ وہ اس میچ میں بھی ناکام ہو گی۔ سابق وزیر اعظم اپنے ملک کے ہر اشو، چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ، کو کرکٹ کی ہی عینک سے دیکھنے کے مرض میں مبتلا ہے۔
لیکن ان سیاسی لن ترانیوں اور سیاستدانوں کی سیاہ کاریوں کے باوجود پاکستان کی ۲۲ کروڑکی آبادی اندھی، بہری، اور گونگی ہے۔ دنیا کی کوئی قوم اتنی اندھی شخص پر ست نہیں جتنی کہ ملک پاکستان کے لوگ ۔آزادی کے ۷۵ سال گذر جانے کے باوجود پاکستان کے لوگوں کو ابھی تک یہ بات سمجھ میں نہیںآرہی ہے کہ پاکستان آرمی، مختلف مکاتب فکر اور مسلکوں سے وابستہ مذہبی قیادت کے دعویدار علما، اشرافیہ، جاگیردار، سردار، جرگے، جوڈیشری سے وابستہ ذمہ داروں کا ایک مخصوص حصہ اور دوسرے چند لوگ نہ صرف عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں بلکہ ملک کے تمام تر وسائل اور فیصلہ سازی پر قابض ہیں۔
ہر ایک سیاستدان اور کم و پیش ہر سیاسی جماعت کی اپنی ایک مسلح ملیشیا ہے ، کوئی طالبان سے وابستہ ہے تو کوئی حقانی نیٹ ورک سے، کوئی عمر انڈو ٹائیگر فورس تشکیل دے کر لوگوں کی آواز کو دبانے پر کمر بستہ ہے تو کوئی کسی اور گھوڑے پر سوار اپنی انانیت اور جنون میں مبتلا ہے۔
بہر حال تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جو کروڑوں لوگ فی الوقت سیلاب کی قہرسامانیوں سے جھوج رہے ہیں اور جن کا کوئی پرسان حال نہیں، جو دو قت کی روٹی اور ادویات کے لئے ہاتھ پھیلائے ہیں، جو کھلی چھت کے نیچے پچھلے ۱۵ دنوں سے زندگی گذار رہے ہیں فی الوقت امداد، ہمدردی اور راحت رسانی کے مستحق ہیں۔ انسانی ہمدردی کاتقاضہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر ان متاثرین کے لئے کوئی راحت فراہم کی جائے، فی الوقت تک کئی ممالک نے امداد کی پیشکش کی ہے اور مالی معاونت کا بھی اعلان کیا ہے۔ جبکہ دنیا کے کچھ ماہرین ماحولیات نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان پر جو قہر ٹوٹ پڑا ہے وہ اس موسمیاتی تبدیلی کا ثمرہ ہے جس موسمیاتی تبدیلی میں خود پاکستان کا محض ایک فیصد حصہ ہے جبکہ باقی ۹۹ فیصد ذمہ داری باقی ملکوں بالخصوص ترقی یافتہ ملکوں پر عائد ہوتی ہے ۔ لہٰذا اسی تناسب سے پاکستان کی مدد کی جانی چاہئے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے بھی پاکستان کی اس صورتحال پر اپنی فکر مندی اور تشویش ظاہر کی ہے جبکہ امداد کے حوالہ سے صلاح و مشورہ جاری ہے ۔ بہ حیثیت ہمسایہ ملک کے ہندوستان پر بھی یہ اخلاقی ذمہ واری ہے کہ وہ متاثرین کی مدد کے لئے آگے بڑھے اور پاکستان کے سیاستدانوں کی سیاسی عینکوں کے ذریعہ ان کے مخصوص بیانات کو کوئی اہمیت نہ دے ۔