غلام نبی آزاد کے استعفیٰ سے اُڑنے والا گرد وغبار آہستہ آہستہ اب چھٹ رہاہے لیکن سیاسی سطح پر جو ہلچل مچی ہے آنے والے دنوں میں وہ اونٹ کی مانند کیا کروٹ لے سکتی ہے اس بارے میں محض قیاس ہی کیاجاسکتا ہے۔ ملکی سطح پر آزاد کے اس اقدام کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ان پر نظر رہیگی البتہ جموں وکشمیرکی سیاسی افق پر بھاری ہلچل مچ گئی ہے لیکن ابھی وہ ہلچل پردے کی اوٹ میںہی ہے۔
آزاد آنے والے چند دنوں میںاپنی تنظیم کا اعلان کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، اس تعلق سے وہ اپنی پوزیشن واضح کرچکے ہیں۔ جموںوکشمیر کے سیاسی منظرنامے کے حوالہ سے ایک اور پارٹی کی تشکیل اگر چہ کوئی سیاسی عجوبہ نہیں لیکن پہلے سے موجود قومی دھارے سے وابستہ کئی ایک پارٹیوں کیلئے یہ پارٹی کسی چیلنج سے کم ثابت نہیں ہوگی۔ مجوزہ پارٹی کی ہیت ترکیبی کیا ہوگی، اس کے اجزا کیا ہوں گے اور صوبائی ؍علاقائی سطح پر لوگ اور سیاسی نظریات کے حامل عنصر اس کی پذیرائی کریں گے یا جموں وکشمیر کی سیاسی اُفق پر محض قومی دھارے سے وابستہ ایک اور پارٹی کا اضافہ تصور کرکے زیادہ اہمیت نہیں دیں گے، ان پر توجہ مرتکز رہیگی۔
البتہ قیاسات کی کوئی حد نہیں ہوتی اور نہ ہی سیاسی منظرنامے اور سیاسی چاہتوں کے حوالہ سے خیالات کے اظہار کو شجر ممنوعہ سمجھا جاسکتا ہے۔یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں کہ آزاد کا اپنے آبائی علاقے چناب اور اس سے آگے پیر پنچال خطوں میںکچھ نہ کچھ اثرونفوژ ہے۔ماضی میں ان خطوں سے نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، کانگریس الیکٹورل پراسیس کے تعلق سے کچھ نہ کچھ حاصل کرتے رہے ہیں۔ بی جے پی سیاسی منظرنامے پر نمودار ہوئی تواس نے بھی آگے چل کر اپنے لئے حمایت حاصل کرلی۔لیکن اب قیاس یہ ہے کہ آزاد جب پارٹی حیثیت سے اپنے اُمیدواروں کو الیکٹورل میدان میں جھونک دینے کا اعلان کرے گا تو علاقائی رگ حمیت کا بھڑکنا غیر فطری نہیں ہوگا۔ وہ ان دونوں خطوں سے کچھ کامیابیاں ضرور حاصل کریںگے۔
اس قیاس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ روایتی سیاسی پارٹیوں… نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی اور کانگریس کے کیڈروں میں اتھل پتھل دیکھنے کو ملے گی، کوٹ بدل جائیں گے، چہرے ادھر اُدھر ہوسکتے ہیں ۔ پارٹیوں کے اندر کشمیر مستثنیٰ نہیں۔ ٹوٹ پھوٹ کے امکانات کو بعید از خیال قرارنہیں دیاجاسکتاہے۔ غالباًاس ٹوٹ پھوٹ یا نئے خطرے کا سگنل نیشنل کانفرنس، اپنی پارٹی، پی ڈی پی اور کانگریس جبکہ جموںنشین بی جے پی کی قیادت کو بھی محسوس ہورہاہے۔ اگر چہ بی جے پی کے کچھ لیڈروں نے آزاد کے کانگریس سے مستعفی ہونے کا خیرمقدم کیا ہے جبکہ این ڈی اے سے وابستہ کچھ ایک اکائیوں کی لیڈر شپ نے آزادکو این ڈی اے میں شامل ہونے کا مشورہ بھی دیا ہے لیکن جموں وکشمیر کے الیکٹورل منظرنامے کے حوالہ سے حکمران جماعت کے اندر بھی کچھ نہ کچھ تشویشات اور فکر مندی کے بادل سایہ فگن ہوتے نظرآرہے ہیں ۔ یہ ضروری نہیں کہ اس فکر مندی یا خدشات کو زبان دی جائے۔
جموں وکشمیر میںمجوزہ اسمبلی الیکشن جب بھی ہوں گے آزاد کی میدان میں اُترنے سے متوقع نتائج اب متوقع نہیں ہوں گے بلکہ ان میںپھیر بدل کا بہت سارا امکان اب محسوس کیا جارہاہے۔ البتہ اس پھیر بدل کا انحصار اس بات پر ہے کہ گاندھی کانگریس سے وابستہ لوگ کیا اور کس نوعیت کی حکمت عملی اختیارکریں گے اور کیا وہ پارٹی کو دو پھاڑ ہونے سے بچا پائیں گے ۔ا گر چناب اور پیر پنچال نے آزاد کا بھرپور ساتھ دیا تو الیکشن نتائج کے بعد آزاد کنگ میکر کی حیثیت سے اُبھریں گے اور اُس صورت میں تمام روایتی پارٹیوں کیلئے یہ لازمی بن جائے گا کہ وہ ایک نئے مفاہمت نامے پر اپنی اپنی مہر تصدیق ثبت کریں۔
البتہ کنگ میکر کی حیثیت سے اُبھرنے یا اپنی جگہ بنانے کیلئے آزاد کیلئے یہ ضروری بن جاتا ہے کہ وہ جموں وکشمیر کے مخصوص سیاسی، معاشی، ترقیاتی، معاشرتی، تہذیبی ، لسانی معاملات کے علاوہ ان سنگین نوعیت کے معاملات، مشکلات اور مسائل کے عوامی توقعات ، احساسات اور خواہشات کے مطابق حل تلاش کرنے کی سمت میں کن خطوط پر مشتمل اپنا منشور پیش کریں گے۔ اب تک وہ پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر کانگریس کی عینک ،پالیسیوں اور منشور کے تابع ہی اظہار خیال کرتے رہے ہیں لیکن اب زبان بھی بدل گئی ہے، منشور بھی بدل گیا ہے، عینک کا نمبر بھی تبدیل ہوگیا ہے، ان سب پر جموں وکشمیر کی مخصوص چھاپ سایہ فگن ہونے جارہی ہے۔
پھر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کشمیر اور جموں کے نظریات ایک جیسے نہیں، جموں اور چناب خطے کے نظریات کے درمیان بھی کچھ فاصلے ہیں لیکن ان سب کے بیچ میں ۵؍اگست کے بعد باالخصوص دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵؍ اے کے خاتمہ کے بعد جونئی تبدیلی آچکی ہے اور جس کے ساتھ اب اوسط شہری بتدریج وابستہ ہوتے جارہے ہیں ان سبھی اشوز کے تعلق سے آزاد کی مجوزہ پارٹی کے لائحہ عمل پر نگاہ رہے گی۔ کیونکہ یہ بھی پرکھنے کی ایک کسوٹی تصور کی جائیگی۔
بہرحال پارٹی کی تشکیل تک اب سے کئی فاصلے ہیں، اس دوران کیا کچھ طے پائے گا، پارٹیوں کے ساتھ مفاہمت یا عدم مفاہمت کے کس حد تک امکانات رہیںگے، بیانیہ کیا ہوگا ان سب کے بارے میں خدوخال آنے والے دنوں میں سامنے آجائیں گے۔ پھر عوام کے ردعمل کابھی بحیثیت مجموعی انتظار رہے گا تاہم آزاد کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنے دیرینہ سیاسی سفر کے ساتھیوں وغیرہ کے ان تبصروں اور ردعمل کو زیادہ اہمیت نہ دیں کیونکہ وہ تبصرے اور ردعمل ان کی طفل سیاسی مکتب ہونے پر خود ہی مہر تصدیق ثبت کررہے ہیں۔