اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی سے متعلق حد بندی کمیشن کی سفارشات کو کس حد تک منظوری ملتی ہے یا یہ سفارشات آنے والے دنوںمیں کیا رُخ اختیار کرتی ہیں قطع نظر اس کے کشمیراور جموں میں مختلف سیاسی پارٹیوں کی جانب سے غیر اعلانیہ الیکشن بگل بجادیاگیا ہے کم وبیش ہر پارٹی نے اپنی سرگرمیوں میں تیزی لائی ہے، عوام کے ساتھ رابطوں کو اور زیادہ قربت عطاکرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ مختلف معاملات کے حوالہ سے پارٹی موقف کو بھی سامنے لایا جارہاہے۔
جموںمیںبی جے پی اور کانگریس مسلسل دعویٰ کررہی ہے کہ اگلی حکومت انہی کی ہوگی جبکہ کشمیرمیں نیشنل کانفرنس اور اپنی پارٹی کو یہ یقین ہے کہ اگلی حکومت انہی کی ہوگی۔ اگلی حکومت کس کی ہوگی، ایک پارٹی حکومت ہوگی یا مخلوط قبل از وقت کچھ کہا نہیں جاسکتاہے البتہ آثار کچھ اور ہیںجو بادی النظرمیں تلخ بھی نظرآرہے ہیں اور پریشان کن بھی۔
مسئلہ حکومت سازی کانہیںہے بلکہ یہ ہے کہ جو معاملات اب سنگین رُخ کرتے جارہے ہیں ان معاملات کا حل کیسے اور کن راستوں پر چلتے تلاش کیاجاسکے۔ یہ معاملات کئی اعتبار سے سنگین رُخ اختیار کرچکے ہیں، جن کی وجہ سے اوسط شہری کی زندگی مشکلات اور پریشانیوں کے ایک ایسے دلدل میں پھنسی نظرآرہی ہے کہ اس دلدل سے باہر آکر چھٹکارا پانے کی راہیں بھی مسدودنظرآرہی ہیں۔
ان معاملات سے چھٹکاراپانے اور لوگوں کو اس مسلسل ازیت رسانی سے نجات دلانے کیلئے کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس کوئی ایسا الہ دین کا چراغ نہیں کہ جو پلک چھپتے معاملات کو حل کرسکے۔ایک ایسی ریاست (یوٹی) جس کا ریاستی درجہ کی بحالی ابھی دلی دور است والامعاملہ ہی ہے، میں بے کاری کا عالم ہر گذرتے دن کے ساتھ ایک نیا ریکارڈ قائم کرتاجارہاہے۔ فی الوقت اس کا گراف ۴۶؍ فیصد تک پہنچ چکا ہے (حالانکہ متعلقہ سروے ادارے کا کہنا ہے کہ یہ درجہ بندی ایک سال قبل کی ہے)کسی محکمہ میں چند ایک خالی اسامیوں کی بھرتی کا اشتہار اجرا ہوتے ہی ہزاروں کی تعداد میں بے کاری سے جھوج رہے نوجوان درخواستیں ہاتھ میںلئے قطار اندر قطار کھڑے دکھائی دے رہے ہیں، پھر بھرتی عمل سالہاسال تک چلتے خرگوش کو بھی شرمندہ کررہی ہے۔
پھر بجلی کا بحران اور اس شعبے کا بڑھتا خسارہ کوئی راحت بخش پیغام نہیں۔ لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے ابھی چند ہی گھنٹے قبل اپنی ایک تقریر میں انکشاف کیاکہ خسارہ ۳۴۰۰؍ کروڑ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ جبکہ بجلی فیس کی وصولی کے تعلق سے آمدن صرف ۲۶۰۰؍ کروڑ روپے ہے۔ اس منظرنامے کے پس منظرمیں اپنی پارٹی کے چیئرمین سید الطاف بخاری کا یہ اعلان کہ انکی پارٹی اگراقتدارمیںآتی ہے تو وہ جموں کیلئے ۳۰۰ سے ۵۰۰ یونٹ اور کشمیرکے لئے ۵۰۰ سے ۳۰۰ یونٹ بجلی مختلف مرحلوں میں مفت فراہم کرگے زمینی حقائق جموں وکشمیر کے اپنے وسائل اور مرکز سے مل رہی مالی معاونت کے حجم کے مخصوص تناظرمیں دیوانے کا خواب ہی محسوس ہورہاہے۔ اپنی پارٹی چائے بھی تو کم سے کم یہ ممکن نہیں۔ البتہ اس شعبے کے تعلق سے ملک کی مختلف بجلی کمپنیوں کے ساتھ نئے پروجیکٹوں کی تعمیر وتنصیب کے حوالہ سے جو معاہدات ہوئے ہیں جو سنجیدہ اور حساس عوامی اور سیاسی حلقوں اور ماہرین اقتصادیات کے بقول یکطرفہ اور اجارہ دارانہ نوعیت کے ہیں کو از سرنو ترتیب دے کر کچھ راحتی امکانات تلاش کئے جاسکتے ہیں۔
پارٹیاں ایک دوسرے کو ان کے ماضی کے رول اور کردار، کامیابیوں اور ناکامیوں، غلط کاریوں، کورپشن ،خوشنما نعروں اور جذبات کو بھڑکا ئو والے بیانات کے بل پر گمراہ کرنے ایسے معاملات کو لے کر ہدف تنقید بنارہی ہے۔ لیکن دوسروں کو تنقید کی زدمیں لانے والوں کو اپنی آنکھ کا شہتیر نظرنہیں آرہاہے بلکہ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہر ایک پارٹی اوران سے وابستہ لیڈر ان خود کو دودھ کا دھلا ہی تصور کررہاہے۔جبکہ لوگوں کو معلوم ہے کہ کون کیا ہے، کچھ بھی ان سے پوشیدہ نہیں ہے۔
یہ ایک ایسا منظرنامہ ہے جس کے ہوتے کشمیر ہویا جموں تبدیلی کی شدید خواہش رکھتاہے۔ لیکن بُنیادی سوال یہی ہے کہ یہ تبدیلی آئے گی کیسے، سیاسی پارٹیاں وہی ہیں جو یوٹی سے قبل ریاست میںسرگرم عمل تھی اور ان کی لیڈر شپ بھی وہی ہے البتہ فرق صرف یہ ہے کہ حالیہ گذرے چند برسوں کے دوران یہ لیڈران کرام پارٹیاں بدل بدل کر اپنا اپنا لباس بدلنے کی سعی لاحاصل کرتے رہے ہیں۔ لیکن خصلت، فطرت اور کردار تبدیل تو نہیں ہوا؟
تبدیلی کیلئے لازم ہے کہ نئے چہرے اُبھرکرسامنے آجائیں جو نہ صرف جمہوریت پر غیر متزلزل یقین اور اعتماد رکھتے ہوں بلکہ جن کا ذاتی کردار بے داغ ہو، کنبہ پروری، اقربانوازی، رشوت بدعنوان اپروچ، تعصب، علاقہ پرستی ، کسی جنون سے عبارت عقیدہ نہ ہو بلکہ جو خود کو عوام کا خادم سمجھ رہے ہوں۔ ویسے بھی آج کی د ُنیا میں اس مخصوص کردارکے حامل شخصیات کا جلوہ قریب قریب ناممکن ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دُنیا ابھی معجزوں سے محروم نہیں ہوئی ہے۔ جموں وکشمیرکے حوالہ سے بھی کوئی معجزہ ہو ممکن بھی ہے اور ناممکن بھی!
لیکن پارٹیاں اور اُن سے وابستہ لیڈر شپ جو دعویٰ کررہی ہیں ان دعوئوں سے کسی معجزہ کی توقع نہیں، بس پرانی شراب نئی بوتل والا ہی معاملہ نظرآرہاہے۔
بہرحال جموںوکشمیر اور اس کی آبادی ترقی، خوش حالی، اورامن واستحکام کے ایک نئے دورمیںداخل ہواس کیلئے لازم ہے کہ کشمیر اور جموں کا نریٹو ایک اور مشترکہ ہو۔ بے شک علاقائی سطح پر علاقائی ضروریات اور عوامی خواہشات کا احترام لازم ہو لیکن چونکہ جموںوکشمیر گذشتہ کئی صدیوں سے مل جل کر زندگی کاسفر طے کرکے آگے بڑھتا رہا ہے لہٰذا اس یکجہتی کو تحفظ اور تقویت عطاکرنے سے ہی اس کے لوگوں کی مشکلات اور پریشانیوں کا مداوا ممکن ہوسکتا ہے۔