سرینگر/۱۹اگست
جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے بی بی سی سے خصوصی بات چیت میں اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ بات چیت کی ضرورت نہیں ہے۔
کشمیری پنڈتوں پر حملوں کو ’دہشت گردانہ‘ قرار دیتے ہوئے سنہا نے کہا کہ ایک وقت تھا جب پاکستان سے حکم آنے پر کشمیر میں دکانیں بند ہو جاتی تھیں اور اب وہ صورتحال بدل گئی ہے۔
سنہا نے واضح طور پر اس بات کی تردید کی کہ حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق ’گھر میں نظربند یا نظربند‘ہیں۔ان کاکہنا تھا کہ میرواعظ کے گھر کے ارد گرد پولیس صرف ان کی حفاظت کے لیے تعینات ہے۔
لیفٹیننٹ گورنر نے کہا ”ہم نے انہیں نہ تو گرفتار کیا ہے اور نہ ہی وہ گھر میں نظر بند ہیں۔“
میرواعظ کے والد کی ایک ناخوشگوار واقعے میں ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے سنہانے کہا کہ علیحدگی پسند رہنما کے گھر کے ارد گرد پولیس ان کی حفاظت کےلئے رکھی گئی تھی۔
لیفٹیننٹ گورنرنے مزید کہا”۲۰۹۱ میں بھی، میرواعظ عمر فاروق کو پی اےس اے کے تحت حراست میں نہیں لیا گیا تھا۔ انہیں نہ تو گرفتار کیا گیا ہے اور نہ ہی حراست میں لیا گیا ہے۔ انہیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں“۔
لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے بھی آرٹیکل ۰۷۳ کی منسوخی کے بعد کشمیر میں ہونے والی تبدیلیوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
سنہا کاکہنا تھا کہ ملک کی پارلیمنٹ کے بنائے گئے بہت سے قوانین جموں و کشمیر میں لاگو نہیں ہوتے تھے، اب ایسے۸۹ ۰قوانین ہیں جو جموں و کشمیر میں رائٹ ٹو ایجوکیشن جیسے نافذ ہیں۔
ان کاکہنا تھا کہ دوسرا مقصد یہ تھا کہ جموں و کشمیر کو پورے ملک کے ساتھ جوڑ دیا جائے اور وہ بھی کامیاب رہا ہے۔
لےفٹےننٹ گورنر کاکہنا تھا کہ ریونیو جنریشن کو کیسے بڑھایا جائے، تاکہ یہاں جی ڈی پی دوگنی ہو۔ سکیورٹی اداروں کے درمیان تال میل۹۰ فیصد تک پہنچ گیا ہے اور بہتر ہو رہا ہے۔ اب دہلی یا جموں و کشمیر کی انتظامیہ امن خریدنے میں نہیں بلکہ امن قائم کرنے میں یقین رکھتی ہے، اس لیے اسی سمت میں کام کیا جا رہا ہے کہ امن خریدا نہ جائے بلکہ امن قائم ہو سکے۔
جنگجوو¿ں ےا علےحدگی پسندوں کے رشدہ داروں کو سرکاری نوکرےوں سے برطرف کئے جانے کے بارے ایک سوال کے جواب میں لےفٹےننٹ گورنر کاکہنا تھا ”دہشت گردوں کے اہل خانہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ ایسے لوگوں کو ہٹایا جا رہا ہے جن کے خلاف کافی شواہد موجود ہیں کہ وہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث تھے“۔
ایک بھی بے گناہ کو برطرف نہیں کیا گیا لیکن ایسے لوگوں کو برطرف کیا گےا ہے اور کیا جائےگا جو دہشت گردی کے واقعات میں کسی طرح ملوث ہوں ۔
کشمیر میں اسمبلی الیکشن کب ہوں گے؟ پوچھنے پر سنہا نے کہا”ہم جمہوریت پر کسی سے سبق نہیں چاہتے۔ جمہوریت کا مطلب صرف اسمبلی انتخابات نہیں ہوتا۔ پنچایت کا نمائندہ ضلع پنچایت کا چیئرمین، لوک سبھا کا رکن ہوتا ہے۔ خاص وجوہات کی وجہ سے اسمبلی انتخابات نہیں ہو رہے ہیں“۔
سنہا نے کہا کہ وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میںکہا کہ پہلے حد بندی ہوگی، پھر انتخابات ہوں گے اور اس کے بعد ریاست کا درجہ واپس کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ حلقہ بندیوں کا کام مکمل ہو چکا ہے، الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ ووٹر لسٹ کو اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے، پولنگ کے مقامات طے ہوئے تو الیکشن کمیشن وقت پر فیصلہ کرے گا۔
لےفٹےننٹ گورنر نے کہا کہ ملک کی پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ کی جانب سے دی گئی یقین دہانی بڑی بات ہے، اس لیے اس پر عمل کیا جائے گا۔” صحیح وقت پر مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے گا“۔
کیا اب باہر کے لوگ جموں و کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں؟یہ پوچھنے پر سنہا نے کہا ”ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ جیسی پہاڑی ریاستوں میں رہائشیوں کی قابل کاشت زمین کے تحفظ کےلئے قانون موجود ہے، ایسا قانون یہاں بھی لایا گیا ہے“۔
لیفٹےننٹ گورنر کاکہنا تھا”لیکن صنعتوں کو زمین دلوانے کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں۵۶ ہزار کروڑ کی تجاویز آئی ہیں اور ان میں سے۳۸ ہزار کروڑ کی تجاویز کو منظوری بھی دی گئی ہے“۔
سنہا نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کے کئی گروپوں نے یہاں انڈسٹری لگانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ایمار، دبئی پورٹ کمپنی اور لولو گروپ ان میں نمایاں ہیں۔
اگر اتنی سرمایہ کاری ہے تو بے روزگاری میں کمی کا اثر ہونا چاہیے، لیکن سی ایم آئی ای کے اعداد و شمار میں اتنی سرمایہ کاری کے بعد بھی روزگار کا فقدان ہے، کیوں؟اس پر سنہا نے کہا کہ سی ایم آئی ای کے اعداد و شمار پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہے، لیکن ان کے اعداد و شمار ہر ماہ کیسے بدلتے ہیں، یہ بھی غور طلب ہے۔
سنہا نے کہا بنیادی طور پر جموں و کشمیر میں سرکاری ملازمت ہی روزگار کا واحد ذریعہ رہی ہے۔”یہاں پانچ لاکھ لوگ سرکاری نوکریوں پر ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں خالی اسامیاں تیزی سے پر کی جا رہی ہیں‘۳۰ ہزار نوکریاں دی گئی ہیں“۔
لےفٹےننٹ گورنر نے کہا ”میرے اندازے کے مطابق جو سرمایہ کاری آرہی ہے، وہ۷ ۰۔۷۵ہزار کروڑ تک جائے گی اور اس سے ۵۔۶لاکھ نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔
کشمیر ی پنڈتوں کی حالےہ ٹاگےٹ ہلاکتوں کے بارے میں سنہا کاکہنا تھا”یہ درست ہے کہ کچھ کشمیری پنڈتوں کو نشانہ بناتے ہوئے حملے ہوئے ہیں لیکن دیگر پر بھی حملے ہوئے ہیں“۔
ان کاکہناتھا”دہشت گردانہ حملوں کو کسی مذہب کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ آپ دیکھیں تو کشمیری مسلمان بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور یہ تعداد کم نہیں بلکہ زیادہ ہوگی“۔
لےفٹےننٹ گورنر نے کہا ”دوسری بات یہ کہ یہاں سڑکوں پر۱۲۵ تا۱۵۰ بے گناہ لوگ مارے گئے‘لیکن یہاں پچھلے تین سالوں میں ایک بھی شخص سیکورٹی فورسز کی گولیوں سے نہیں مارا گیا۔
سنہا نے کہا ”یہ کوئی عام بات نہیں ہے۔ پتھراو¿ اور ہڑتال سب تاریخ کا حصہ ہے۔“