پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیرکا جغرافیائی ، سیاسی اور انتظامی حلیہ بگاڑ کر تبدیل کرنے کے خلاف علاقے میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ اب کچھ عرصہ سے جاری ہے۔ زیر تسلط علاقے کے تمام دس ضلعوں میں لوگ سڑکوں پر آرہے ہیں اور حکومت پاکستان کی جانب سے علاقے کی ہیت تبدیل کرکے خطے پر مکمل سیاسی، جوڈیشری اورانتظامی کنٹرول حاصل کرنے کی کچھ عرصہ سے جاری کوششوں کو ناقابل قبول قرار دے کر مزاحمت کی جارہی ہے۔
حکومت پاکستان آئین میں ۱۴؍ویں ترمیم متعارف کرنا چاہتی ہے جس کی رئو سے مقبوضہ کشمیرکے مالیاتی، انتظامی، عدالتی اختیارات براہ راست اسلام آباد کے کنٹرول میں دیئے جانے کی تجویز ہے۔ اس ۱۴؍ ویں آئینی ترمیم کے ایک حصے کے طور پر نہ صرف ’سٹیٹ ‘کانام تبدیل کرنے کی تجویز ہے بلکہ وزیراعظم پاکستان کی قیادت میں کشمیر کونسل نامی ادارہ بھی قائم کیاجارہاہے جس کے لئے پاکستان کی کابینہ کے چھ ارکان کو نامزد کیاجارہاہے جبکہ چھ دوسرے ارکان مقامی ہوں گے۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ، سپریم کورٹ کیلئے ججوں کی نامزدگی اور تقرری کے مکمل اختیارات کے ساتھ ساتھ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے بھی سارے اختیارات حکومت پاکستان کے ہاتھ میں ہوں گے جبکہ ان تقرریوں کو کسی بھی عدالت میں چیلنج کرنے کی گنجائش نہیں ہوگی۔ ان کے علاوہ جائیدادوں کی حصولی اور خرید وفروخت کے حوالہ سے بھی تمام اختیارات اسلام آباد کے ہاتھ میں ہوں گے۔
گذری چند دہائیوں کے دوران حکومت پاکستان ۲۴؍ مرتبہ اپنے زیر کنٹرول کشمیر کی ہیت اور جغرافیہ تبدیل کرنے کی کوشش کرچکی ہے،کبھی اپنے ناجائز قبضے والے خطے کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی کوشش کرتا رہا تو کبھی مقامی آبادی کی خواہشات کے برعکس اور ان کی آواز کا گلہ گھونٹتے ہوئے گلگت بلتستان کوالگ کرکے اُس خطے کو اپنے براہ راست کنٹرول میں لے کر مکمل تسلط کے راستے پر گامزن ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ غیر منقسم جموں وکشمیر کے ۳۰؍ فیصد حصے، جس میں گلگت بلتستان بھی شامل ہے، پاکستان کے زیر کنٹرول ہے جبکہ پاکستان نے اس کے علاوہ اس خطے کے ایک بڑے حصے جو بحیثیت مجموعی ۱۵؍ فیصد زمین پر مشتمل ہے کو چین کے ناجائز قبضے میں دے رکھا ہے۔ اس طرح پاکستان نے جموں وکشمیرکے ۴۵؍ فیصد رقبے کو اپنے زیر تسلط لانے کے بعد اس کو تین حصوں میں تقسیم کرکے اس کی ہیت، سیاسی حساسیت اور جغرافیائی حلیہ تبدیل کرنے کی مجرمانہ ذہنیت اور ننگی جارحیت کا مظاہرہ کیا۔
جہاں تک اس مخصوص خطے کے قدرتی وسائل کی پرورش اور تحفظ کا تعلق ہے اس حوالہ سے ابھی چند ہفتے قبل پاکستان کے ایک بااثر اُردو اخبار نے ایک تجزیاتی رپورٹ شائع کی تھی جس میں ان مافیاز کی سرگرمیوں کا احاطہ کیاگیا جو زیر کنٹرول علاقے میں موجود ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق علاقے کے کم وبیش سبھی سیاستدان اور اشرافیہ جنگل سمگلروں، مافیاز اور دوسرے مجرموں کی سرپرستی کرکے ان قدرتی وسائل کو بے دردی سے لوٹ رہے ہیں جبکہ ان مافیاز کی سرگرمیوں کو روکنے کی کسی ادارے میں جرأت نہیں۔ جنگل کا مجموعی رقبہ ۱۶ فیصد سے گھٹتے گھٹتے اب محض ۲؍ فیصد تک سمٹ چکا ہے ۔یہی حشر دوسرے قدرتی وسائل کا ہورہاہے۔ انتظامیہ کے مختلف شعبوں میںتقرریوں اور تبادلوں کو ایک انڈسٹری میں بدل دیاگیاہے۔
کسی بھی مقامی سیاسی نظریات کی حامل پارٹی اور ان پارٹیوں سے وابستگی رکھنے والوں کو انٹی تصور کیاجارہاہے۔ انہیں سیاسی سرگرمیوں میںحصہ لینے کی نہ اجازت ہے اور نہ ہی ایسا کوئی موقعہ فراہم کیاجارہاہے۔ سیاسی نظریات کا گھٹن ہے جبکہ پاکستان کی قومی سطح کی پارٹیوں کی یہی سرتوڑ کوشش رہتی ہے کہ علاقے کا سیاسی اورحکومتی کنٹرول ان کے ہاتھ میں آجائے، یہی نظریہ اور مفاد پرستانہ اپروچ ہے، جس کے چلتے مقامی سطح پر سیاسی پارٹیوں کے وجود کو نہ پنپنے دیاجارہاہے اور نہ ہی زیادہ سراُبھارنے کی مہلت دی جارہی ہے ۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اس نام سے ملتی جلتی دوسری پارٹیاں، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف ،جماعت اسلامی ایسی کچھ ملکی تنظیمیں ہیںجو اپنے اپنے سیاسی اور حقیر اہداف کی تکمیل کیلئے مافیاز کی سرپرستی کررہی ہیں۔ اسلام آباد میں جس کسی بھی پارٹی کا راج ہے وہی پارٹی زیر تسلط کشمیرمیں حکومت تشکیل دیتی ہے۔ ایسی حکومتی تشکیل میںجہاں سیاسی مصلحتوں کو بروئے کار لایاجارہاہے وہیں مقامی انتظامیہ کی نکیلیں کس کر انہیں اسلام آباد کی خواہش کی دہلیز پر سجدہ ریز ہونے پر مجبور کیاجارہاہے۔ الیکشن عمل کے حوالہ سے مخصوص سیاسی اورنظریاتی وابستگیوں کو ہی ترجیح دی جاتی ہے، جوان مخصوص سیاسی اور نظریاتی وابستگیوں کی کسوٹی پر نہ اُترتا ہواس کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے جاتے ہیں۔
بہرحال فی الوقت حکومت کے منصوبوں کے خلاف مظفرآباد ، باغ، پونچھ ، راولکوٹ، نیلم وادی میں لوگ سراپا احتجاج ہیں جبکہ باقی ماندہ ضلعوں کے لوگ بھی وقفے وقفے سے ان احتجاجوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بڑا سوال یہی ہے کہ اس عوامی مزاحمت کے دبائو میں آکر حکومت پاکستان اپنی۱۴؍ ویں آئینی ترمیم سے ہاتھ واپس کھینچ لیتی ہے یا فوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنے ارادوں اور عزائم کو منطقی انجام تک پہنچانے کار استہ اختیار کر ے گی۔