۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء سے۱۵؍اگست ۲۰۲۲ء تک ، ۷۵؍سال کا یہ سفر قوم اور ملک کیلئے اہمیت کا حامل ہے۔ آزادی کے ۷۵ سال کا یہ سفر کئی اعتبار سے یادگار ، کئی اعتبار سے تلخ یادوں سے عبارت ہے جبکہ بحیثیت مجموعی ان ۷۵؍ سالوں کا احاطہ کیاجائے اور کیا حاصل کیا اور کیا کھویا کے تناظرمیں تجزیہ کیاجائے تو آئین کی حرمت اور پاسداری، جمہوریت کا تحفظ اور معیشت کے حوالہ سے مسلسل پیش رفت کو اطمینان بخش بھی قرار دیاجاسکتا ہے اور فخر بھی۔
آزادی کے بعد جو بھی پارٹی اور حکومت برسراقتدار آئی اس نے ملک کی ترقیات میں اپنا اپنا مٹھی بھر بلکہ بھر پور کردار اداکیا۔ چاہئے حکومت چند ہی ماہ کی مہمان ثابت ہوئی یاپورے پانچ سال کی، ہر ایک نے آئین کی پاسداری کو مقدم رکھا، جمہوریت اور جمہوری مزاج سے عبارت سسٹم کی نشوونما کی جبکہ زندگی اور ترقیات کے مختلف شعبوں میں ہر ممکن ترقی اور پیش رفت یقینی بنانے کی سمت میں ہر وہ قدم اُٹھایا اور ہر وہ قانون سازی کی جو اس حوالہ سے وقت کے تقاضوں کے ساتھ مطابقت رکھتی تھی۔
آج ہندوستان معیشت کے جس پائیدان پر کھڑا نظرآرہاہے اس کی ہمسائیگی کے حوالہ سے جو ممالک ہیں وہ اس معیشت کی برابری کا دعویٰ کرنے سے قاصر ہیں بلکہ تلخ سچ تو یہ ہے کہ یہ ممالک آج کی تاریخ میں زبردست معاشی ، سیاسی ، آئینی بحرانوں سے جھوج بھی رہے ہیں جبکہ قدم قدم پر اپنی انحطاط پذیر معیشت کو سہارا دینے کیلئے عالمی سطح پر اداروں اور قریبی دوست ممالک سے امدادطلب کرتے نظرآرہے ہیں۔
ان گذرے۷۵؍ برسوں کے دوران ملک نے زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالوں سے خود کفالت بھی حاصل کرلی ہے جبکہ باقی ماندہ شعبوں میں خود کفالت حاصل کرنے کیلئے جدید سائنسی اور ٹیکنالوجی سے عبارت خطوط کو بروئے کار لانے کا سلسلہ جاری ہے۔البتہ اس ترقیاتی عمل کی راہ میں ابھی کچھ معاملات جو کورپشن اور بدعنوانیوں پر مشتمل ہے مانع ہیں۔ کورپشن اور بدعنوان طرزعمل کی بیخ کنی کے لئے حالیہ چند برسوں کے دوران جو اقدامات اُٹھائے گئے اور جو قانون سازی کی گئی جبکہ ادائیگیوں اور راحتی اقدامات کے حوالوں سے جو طریقہ کار وضع کیاگیا ہے اُن پرعمل آوری کے مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس نئے طریقہ کار کی بدولت بچولیوں کے عمل دخل کا بتدریج خاتمہ ہوتا جارہاہے، اس طریقہ کار کو ممکن اور صاف وستھرا بنانے کیلئے بینکوں کو براہ راست ذمہ دار بنایا جارہاہے۔
البتہ تحریر وتقریر کی آزادی کے تعلق سے ابھی کچھ خامیاں موجود ہیں۔ اگر چہ سخت ترین تادیبی قوانین اور ضابطے موجود ہیں لیکن سماج کے کچھ عنصر اس آزادی کا ناجائز استعمال بھی کررہے ہیں اور غلط فائدہ بھی اُٹھارہے ہیں۔یہ عنصر مختلف نوعیت کے جنونوں میں مبتلا ہیں ، آبادی کے مختلف طبقوں اور فرقوں کے درمیان نفرتوں کی دیواریں کھڑی کررہے ہیں، مذہب اور تہذیب کی آڑ میں فرقہ پرستی اور ننگی جارحیت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔یہ تاثر مسلسل طور سے دیاجارہاہے کہ یہ ملک صرف اور صرف ان کیلئے مخصوص ہے باقی دوسرے ملک کے شہری توہیں لیکن سارے حقوق انہیں تفویض نہیںکئے جاسکتے ہیں۔ عام طور سے ان عناصر کا تعلق اور وابستگی مخصوص نظریات اور ذہنیت کے حامل اداروں اور جماعتوں سے قراردیاجارہاہے جنہیں عام اصطلاح میںفرنج ایلی مینٹ کے طور جانا جاتا ہے۔
ان عنصر کی بڑھتی سرگرمیاں جہاں باعث تشویش ہیں وہیں حساس اور ذمہ دار حلقے اس بات کو محسوس کررہے ہیں کہ ان کی یہ سرگرمیاں ملک کو جوڑنے اور ایک لڑی میں پروسنے کی بجائے توڑنے پر ہی منتج ہوسکتی ہیں۔ اس حوالہ سے ملک کی جوڈیشری کی جانب سے حالیہ ایام میں کچھ انتباہی ریمارکس بھی سامنے آتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ان عنصر کی نفرتوں اور جنونیت سے عبارت سرگرمیاں جاری ہیں۔
جہاں تک ملک کی خارجہ اور سفارتی محاذ پر پیش رفت کاتعلق ہے اس میں دو رائے نہیں کہ حالیہ محض چند برسوں کے دوران ملک نے عالمی برادری کی صف میں ایک بااعتبار، قابل اعتماد اور وقار کا مقام حاصل کیا ہے ۔ عالمی سطح پر مختلف ملکوں پر مشتمل جتنے بھی گٹھ بندھن (اتحاد) ہیں ہندوستان کو ان کی رکنیت حاصل ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عالمی سطح پر ہندوستان کو کس مرتبت اور وقار کی نگاہوں سے دیکھا جارہاہے۔
اس کے برعکس ہمارا ہمسایہ پاکستان ایک روز قبل آزادی سے ہم کنارہوا لیکن ان گذرے ۷۵؍ برسوں کے دوران اُس ہمسایہ ملک نے استحکام نہیں دیکھا، آئین کو کئی بار ٹوٹتے دیکھا، سویلین حکومتوں کی برطرفی اور مارشل لاء کا وقفے وقفے سے نفاذ کوئی پوشیدہ امر نہیں، عدلیہ کی دستبراری ، جی حضوری اور مارشل لاء کے تحت حلف وفاداریوں کی بھی ایک لمبی تاریخ ہے، آج کی تاریخ میں ہمارا یہ قریبی ہمسایہ اپنی تاریخ کے ایک اور مگر خطرناک نتائج اور مضمرات کے حامل سنگین سیاسی، آئینی ،معاشرتی اور معیشتی بحران سے جھوج رہاہے۔ عدلیہ بھی منقسم ہے، فوج کے اندر بھی دھڑہ بندی ہے، سابق فوجی بھی سیاسی دھڑ بندیوں کے راستے پر گامزن ہیں، سری لنکا کی حالت عیاں ہے جبکہ بنگلہ دیش اپنی آزادی کے محض ۵۱ ؍ویںسال میں داخل ہوتے ہوتے پاکستان کو کم وبیش ہر شعبے میں بہت پیچھے دھکیل کر ترقی کی راہ پر پیش قدمی کررہاہے۔