صاحب !ہم سب انسان ہیں …انسان ہیں اس لئے غلطیاں بھی ہم سے ہی ہوں گی… ان غلطیوں کا احساس بھی ہم کو ہی ہو گا … اور اس احساس کی وجہ سے ہی آئندہ کبھی غلطی کو نہ دہرانے کی کوشش بھی ہم ہی کریں گے ۔لیکن صاحب کچھ غلطیاں ایسی بھی ہوتی ہیں‘جن کا احساس ہونا ہی کافی نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے کہ ان غلطیوں کی وجہ سے کسی کی جان جاتی ہے… کسی کی دنیا لٹ جاتی ہے‘ تہہ و بالا ہو جاتی ہے‘کسی کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ جاتا ہے‘ کوئی بیوی اپنے شوہر سے محروم ہو جاتی ہے‘ کسی کا لخت جگر ہمیشہ کیلئے اس سے چھن جاتا ہے ‘مستقبل تاریک ہو جاتا ہے اور… اور ان سب کی زندگیاںعذاب بن جاتی ہے ‘یہ سب جیتے ہیں اور نہ مرتے ‘ ان کے سارے خواب ٹوٹ کے بکھر جاتی ہیں‘ ان کی امیدیں زمین بوس ہو جاتی ہیں … اور ان کی اپنی چھوٹی سی دنیا جوخوبصورت دکھتی تھی‘ اچانک جہنم سی لگتی ہے … اور یہ سب صرف ایک غلطی‘ کسی کی غلطی کی وجہ سے ہو تا ہے… اب اگر غلطی کرنے والااپنی اس غلطی کو سدھارنا بھی چاہے‘ سدھارنے کی خواہش کا اظہار بھی کرے تو … تو کیاہوگا‘اللہ میاں کی قسم کچھ نہیں ہو گا کہ… کہ جو ہونا تھا وہ ہو گیا … جس کو جانا تھا وہ گیا ‘ وہاںگیا جہاں سے کوئی لوٹ کرواپس نہیں آیا ہے‘جہاں سے کوئی لوٹ کرواپس نہیں آتا ہے… تو ایسے میں اس غلطی کو کیسے سدھارا جائے … کیسے سدھادا جا سکتا ہے ؟سچ تو یہ ہے کہ یہ ایسی غلطی ہے ‘ جس کو سدھارا نہیں جا سکتا ہے… کیونکہ اس غلطی سے جو نقصان ہوا ہے ‘ اس کی تلافی ممکن نہیں ‘ اس کی بھر پائی نہیں ہو سکتی ہے…چاہے آپ مال و دولت کے انبار لگا دیں… ماں باپ کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا ہے… بالکل بھی نہیں ہو سکتا ہے ۔ اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے کہ …کہ جس نے غلطی کی‘ جس کو غلطی کا مرتکب پایا جائیگا‘ اگر پایا جاتا ہے تو… تو اسے سزا دینے سے بھی کچھ حاصل ہونا والا نہیں ہے کہ … کہ سب کچھ ممکن ہے‘ سب کچھ واپس حاصل کیا جاسکتا ہے … سب کچھ لوٹ کے آسکتا ہے ‘ لیکن… لیکن جو اس غلطی کی وجہ سے گیا‘ وہ کبھی لوٹ کے نہیں آسکتا ہے… بالکل بھی نہیں آسکتا ہے … پھر صاحب غلطی کی اصلاح کی پیشکش کیوں؟اس کے کیا معنی؟…یقینا اس کے کوئی معنی نہیں ہیں‘ بالکل بھی نہیں ہیں۔ ہے نا؟