کسی بھی شعبے کے تعلق سے اگر غلط یا غیر حقیقی اعداد وشمارپیش کرنے کسی نریٹو کو سچ ظاہر کرنے کیلئے پیش کیاجائے تو سوسائٹی کے مختلف حلقوں میں کئی طرح کی غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔پھر جب آج کی تاریخ میں میڈیا اورسوشل میڈیا سے وابستہ کچھ لوگ اور ادارے بے لگام ہوں اور اپنے اپنے اختیار کردہ ایجنڈا اور مشنوں کی تکمیل پر تمام تر توجہ اور توانائی کو مرکوز کرنے کی ٹوہ اور کوشش میں ہوں تو غلط فہمیوں کا ایک انبوہ ہمالیہ کے حجم سے بھی کہیں زیادہ حجم کاروپ دھارن کرلیتا ہے۔
جموں وکشمیرمیں کئی سال کے انحطاط کے بعد اس سال کے دوران اب تک ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی اچھی خاصی آمد ریکارڈ ہوئی۔سیاحوں کی کشمیرآمد کے تعلق سے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے بھی اس ضافہ کا اعتراف کررہے ہیں،بحیثیت مجموعی اس اضافہ کا سہرا مرکزی ویوٹی سرکاروں اور انتظامیہ کی انتھک محنت اور کاوشوں کے سرباندھا جارہاہے۔ سیاحت کے شعبے سے وابستہ جتنے بھی لوگ اور ادارے ہیں، چاہئے وہ ہوٹل اور ریستوران ہوں، شکارا ، ہائوس بوٹ اور ٹرانسپورٹ آپریٹرہوں، اوسط کاروباری ہوں، پونی والے یا پورٹر ہوں، وہ سبھی اس منظرنامے کے تعلق سے مطمئن ہیں جبکہ وہ اس بات کی توقع بھی رکھتے ہیں اور خواہش کا اظہار بھی کہ کشمیر اسی طرح اپنا پرامن سفرطے کرتا رہے تاکہ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی آمد میں بدستور اور مسلسل اضافہ ہوتا رہے۔
محکمہ سیاحت کی طرف سے جاری اعداد وشمارات کے مطابق اس سال جنوری اور فروری کے دوران ایک لاکھ ۶۲؍ ہزار ۶۶۴ ملکی اور ۴۹۰ غیر ملکی سیاح واردِ کشمیر ہوئے۔ مرکزی وزارت سیاحت کے مطابق صرف فروری کے دوران ایک لاکھ ۴۲ ہزار سیاح وارد ِ کشمیر ہوئے۔ بحیثیت مجموعی اس سال جنوری سے ۱۵؍مئی تک ۷؍لاکھ سیاح واردِ کشمیر ہوئے جبکہ اسی مدت کے دوران گذشتہ سال صرف ایک لاکھ ۲۵؍ ہزار سیاح واردِ کشمیر ہوئے تھے۔ یہ اعداد وشمارات بھی اس بات کی طرف واضح اشارہ کررہے ہیں کہ کشمیرسیاحوں کی توجہ اور دلچسپی کے ساتھ ساتھ پھر سے پہلی ترجیح بنتا جارہاہے جو کہ ایک خوش آئند پہلو ہے۔
جموںوکشمیر میںسیاحتی شعبے کو ایک نئی روح پھونکنے کی یوٹی ایڈمنسٹریشن اور مرکزی سرکار کی انتھک اور متواتر کاوشوں کو خراج تحسین اداکرنے اور شکریہ کے دو لفظ اداکرنے کے بجائے گندی، علاقہ پرستی اور متعصبانہ ذہنیت کے حامل ایک جموں نشین انگریزی اخبار نے سیاحوںکی آمد میں اس اضافہ کو لے کر کشمیر کے تئیں اپنی روایتی بدنیتی اور ذہنی پراگندگی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے نامعلوم سکیورٹی ایجنسیوں سے منسوب یہ رائے پیش کی ہے کہ جو سرمایہ سیاح کشمیرمیںخرچ کررہے ہیں اس کی تحقیقات ہونی چاہئے ۔
یہ کشمیراور کشمیری عوام کی صرف کردار کشی کا ایک اور دانستہ کوشش نہیں ہے بلکہ کشمیرکو عفریت کے طور پیش کرنے کے ایک مکروہ منصوبے اور ایجنڈا کی ہی کڑی ہے۔ اخبار نے سیاحوں کی جس تعداد کا سہارالے کر اپنی اس ذہنی خرافات کو جنم دیا ہے اس تعداد کا کہیں وجود ہی نہیں ہے۔
حالیہ ایام میں روزانہ ۳۵…۴۰؍ہوائی پروازیں واردِکشمیر ہوتی رہی، ان پروازوں کو اگر صرف سیاحوں کی سو فیصد بکنگ کے ساتھ مخصوص بھی کردیاجائے تو روازنہ سیاحوں کی تعداد ۷۲۰۰؍ تک پہنچ جاتی ہے جو بحیثیت مجموعی رواں سال کے پہلے ۶؍ماہ تک یعنی جنوری سے لے کر جون کے آخیر تک ۱۳؍ لاکھ تک سیاح وادِ کشمیر ہوئے ہیں۔ جبکہ اسی مدت کے دوران ماتا ویشنو دیوی کی درشنو ں کیلئے آنے والے یاتریوں جن کی اوسط ۱۵؍ ہزار یومیہ مقرر ہے کہ تعداد ۲۶؍لاکھ تک ہوسکتی ہے ۔اگر چہ ویشنو دیوی آنے والے یاتریوں کی سالانہ اوسط ۸۰؍ لاکھ تک بھی پہنچ رہی ہے۔
منفی رپورٹنگ اور معاندانہ ذہنیت کے سہارے معاملات کو پیش کرنے سے یوٹی اور نہ ہی ملک کے کسی وسیع ترمفاد کا تحفظ ہوسکتا ہے بلکہ ایسا کرکے غلط اور گمراہ کن تاثرات گھر کرجانے کے نئے راستے وا ہوجاتے ہیں۔ ایڈمنسٹریشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس ذہنیت کی حامل رپورٹنگ اور پیش کش کا قلع قمع کیاکرے تاکہ جس امن اور ترقی کی خاطر حالیہ چند برسوں باالخصوص ۳۷۰؍ کے بعد اُٹھائے جارہے اقدامات کا بھر پورثمرہ حاصل کیاجاسکے اور لوگ بھی مجموعی طور سے ان ثمرات سے استفادہ حاصل کرتے رہیں۔
کشمیر کو عفریت کے طور پیش کرنے کیلئے ماضی قریب میں ملکی سطح کے کچھ میڈیا اداروںنے جو غلیظ اور متعصبانہ کرداراداکیا ہے اس کے ردعمل میں ملکی سطح پر منفی اثرات اور جذبات کا اُبھار مشاہدہ میںآچکا ہے ۔ خود اعلیٰ آئینی اور انتظامی عہدوں پر فائز بعض شخصیتوں باالخصوص سابق گورنر اس معاندانہ عکاسی پر اپنی ناپسندیدگی اور تشویش کا برملا اظہار کرچکے ہیں۔ لیکن معلوم نہیں کیوں بعض علاقہ پرست اور متعصبانہ حلقے کشمیر دُشمنی اور کشمیر مخالفت کو اپنا مشن اور ایجنڈا قرار دے کر اس کو مختلف طریقوں سے آگے بڑھانے کی سعی میں سرگرم ہیں۔