تاشقند///
طالبان حکومت کے اعلیٰ سفارت کار نے ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے دوران الزام عائد کیا ہے کہ افغانستان میں غربت کا بنیادی محرک امریکہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں ہیں۔
طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے واشنگٹن پر ایک مرتبہ پھر زور دیا ہے کہ وہ پابندیاں ہٹائے اور افغان مرکزی بینک کے امریکہ میں رکھے گئے سات ارب ڈالر کے منجمد اثاثےغیر مشروط طور پرجاری کرے تاکہ طالبان ملک کے گہرے ہوتے معاشی اور انسانی بحران سے نمٹ سکیں۔
افغانستان کے دو ارب ڈالر کے مزید اثاثے یورپی ممالک میں منجمد ہیں۔
تاشقند کانفرنس میں امیر خان متقی کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے اثاثوں پر پابندی جیسے اقدامات نے نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاری اور مالیاتی لین دین کو متاثر کیا ہے بلکہ اس سے حکومتی سرگرمیوں پر بھی اثر پڑا ہے۔
انہوں نے افغانستان کے اثاثوں کو بحال کرنے اور پابندیاں ہٹانے کو کابل اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف ایک بنیادی قدم قرار دیا۔
واضح رہے کہ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں منعقدہ دو روزہ کانفرنس میں ازبک حکام کے مطابق چین، ایران، پاکستان، روس اور امریکہ سمیت 20 ممالک سے 100 سے زائد شرکا اور یورپین یونین، اقوامِ متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کے نمائندوں نے شرکت کی۔
امریکی وفد کی قیادت افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ نے کی جب کہ افغان خواتین، لڑکیوں اور انسانی حقوق کے لیے خصوصی ایلچی رینا امیری بھی ان کے ہمراہ تھیں۔
طالبان کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ امریکہ افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں برس فروری میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے افغان عوام کی انسانی بنیاد پر مدد کے لیے ساڑھے تین ارب ڈالر کے اثاثے بحال کیے تھے تاکہ افغان عوام کو فائدہ پہنچ سکے۔
افغانستان کی باقی مانندہ رقم کو طالبان کے خلاف امریکی عدالتوں میں جاری دہشت گردی سے متعلق مقدمات کے لیے رکھا گیا تھا۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ افغان عوام کی امداد کے لیے ایک مناسب طریقۂ کار کی تلاش میں ہے تاکہ ساڑھے 3 ارب ڈالر کو ایک نظام کے تحت تقسیم کیا جا سکے جسے صدر بائیڈن نے الگ کیا ہے۔
البتہ طالبان کا مطالبہ ہے کہ پوری رقم ایک ساتھ جاری کی جائے کیوں کہ ان کے بقول یہ رقم افغانستان کی ہے۔
رپورٹس کے مطابق منگل کو امریکہ اور طالبان نے افغان اثاثوں کو ٹرسٹ فنڈ میں جاری کرنے کے لیے تجاویز کا تبادلہ کیا، جو دونوں فریقین کے درمیان جاری بات چیت میں پیش رفت کا اشارہ ہے۔
سابق افغان عہدیدار اور سیاسی مبصر توریک فرہادی کا کہنا ہے کہ’’مسئلہ یہ ہے کہ طالبان ابھی تک امریکہ کی پابندیوں کی فہرست میں ہیں۔
ازبکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق کانفرنس سے ازبک وزیرِ خارجہ ولادیمیر نورو نے کہا کہ ” افغانستان کے مالیاتی اثاثوں کو بحال کرنا افغانستان کی اقتصادی تعمیرِ نو کے بنیادی عوامل میں سے ایک ہے۔”
امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ ہم دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ باہمی احترام اور جائز دوطرفہ مفادات کے فریم ورک میں مثبت تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ان کے بقول ’’ہم دنیا کے دیگر ممالک سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ طویل مدتی جائز دو طرفہ مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے امارت اسلامی افغانستان کے ساتھ باضابطہ روابط شروع کریں۔‘‘
واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو ایک سال ہونے والا ہے لیکن اب تک کسی بھی ملک نے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔