کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ جموںکشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی اس کی اولین ترجیح ہے ۔اس کاکہنا ہے کہ ریاستی درجے کی بحالی جموں کشمیر کے لوگوں کا ایسا آئینی حق ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے ۔اس پارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئندہ مانسون اجلاس میں وہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھائے گی ۔
سننے میں تو یہ ساری باتیں اچھی لگتی ہیں ‘ لیکن کیا حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے ؟جواب نہیں ہے ۔اور اس لئے ہے کیونکہ کانگریس کا جب کوئی بڑا لیڈر جموں کشمیر آتا ہے تو اسے جموں کشمیر کے آئینی حقوق یاد آتے ہیں اور یہ اُس وقت ہی یاد رہتے ہیں جب تک وہ لیڈر جموں کشمیر کی حدود میں ہوتا ہے ۔ جموں کشمیر کی حدود سے باہر نکلتے ہیں کہ کانگریس پارٹی کو جموں کشمیر ‘ اس کے لوگ اور اس کے مسائل بھی بھول جاتے ہیں ۔
کانگریس ‘ گرچہ پہلے جیسے مضبوط پارٹی نہیں رہی ہے اور اسے تنظیمی سطح پر کئی مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے ‘ لیکن پھر بھی حقیقت تو یہی ہے کہ لوک سبھا میں اس کے ۹۹ ممبران ہیں اور یہ ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے ۔ اس کے لیڈر ‘راہل گاندھی لوک سبھا میں ایل او پی یعنی حزب اختلاف کے لیڈر ہیں ۔
راہل گاندھی بی جے پی خاص کر وزیر اعظم نریندر مودی کو آئے روز اپنی تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں ‘ انہیں ملک کو درپیش کئی مسائل پر گھیرلیتے ہیں ‘ ان سے جواب طلب کرتے ہیں ‘ لیکن جہاں تک جموں کشمیر کی بات ہے تو کانگریس اور اس کی قیادت کے منہ پر تالے لگ جاتے ہیں ۔یہ جماعت مکمل خاموشی اختیار کئے ہو ئے ہے ۔
جموں کشمیر میں اسمبلی الیکشن کو آٹھ ماہ ہو گئے ہیں اور عام تاثر یہی تھا کہ الیکشن کے بعد ریاستی درجہ بحال کیا جائیگا جیسا کہ خود وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے وعدہ کیا تھا ۔ قطع نظر اس کے کہ کیا مرکزی حکومت اپنے اس وعدے پر قائم رہتی ہے یا قائم کرنے کی خواہاں بھی ہے … کانگریس بتائے کہ اس نے ان آٹھ ماہ میں کب مرکز کو جموں کشمیر کے ریاستی درجے کی بحال کے حوالے سے سنجیدگی سے کوئی جواب پوچھا ؟
کب کانگریس نے لوک سبھا یا راجیہ سبھا میں یہ مسئلہ اٹھا یا اور مرکز کو یاد دلایا کہ اس نے جمہوریت کے اسی مندر میں ایک ’مناسب‘ وقت پر جموں کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ اب تو جموں کشمیر میں اسمبلی الیکشن بھی ہوئے ‘ ایک منتخبہ حکومت بھی وہاں کام کررہی ہے تو ریاستی درجے کی بحال میں اب کون سی رکاوٹ حائل ہے جو اسے بحال نہیں کیا جارہا ہے ۔ کانگریس نے ایک بار بھی یہ نہیں پوچھا ۔
راہل گاندھی جب یہاں آتے ہیں تو لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ دہلی میں ان کی آواز ہیں ‘ ان کے نمائندے ہیں ۔ لیکن جونہی یہ جموںکشمیر کی حدود سے باہر نکلتے ہیں ان کے ذہن سے جموں کشمیر نکل جاتا ہے اور کانگریس کے دوسرے لیڈر بھی ان کے ہی نقش قدم پر چلتے ہیں ۔
ایسے میں کانگریس کے جنرل سیکریٹری اور جموں کشمیر کے انچارج‘ ڈاکٹر سیدناصر حسین کا یہ کہنا ہے کہ جموں کشمیر کیلئے ریاستی درجے کی بحالی اولین ترجیح ہے جسے کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے ‘ محض ریا کاری اور دکھاوا ہے ۔
اگر جموں کشمیر کے حوالے سے کانگریس کے قول و فعل میں واقعی کوئی تضاد نہیں ہے تو پھر اسے آنے والے مانسون اجلاس میں پارلیمنٹ میں حکومت سے اس بات کا جواب طلب کرنا چاہئے کہ وہ ریاستی درجے کی بحال کے حوالے سے اپنا وعدہ پورا کرنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے یا نہیں ۔یہ کانگریس کیلئے ایک امتحان ہو گا ‘ اس سے جموں کشمیر کے تئیں اس کی سنجیدگی اور دلچسپی کا اندازہ لگایا جائیگا ۔اس سے پتہ چلے گا کہ کیا کانگریس واقعی میں ان باتوں کو عملی جامہ پہنانے میں یقین رکھتی ہے جو اس کے لیڈر جموںکشمیر کے حدود میں کرتے ہیں ۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کشمیر نے جن لوگوں کو چن کر لوک سبھا میں اپنے نمائندوں کے طور پر بھیجا ہے ‘ وہ یہ اشو اٹھاتے ‘لیکن اب تک دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ وہ یا تو اس ضمن میں کوئی کوشش ہی نہیں کرتے ہیں یا ان کی آواز اتنی نحیف(عددی اعتبارسے) ہوتی ہے کہ یہ کسی کے کان تک پہنچتی ہی نہیں ہے ۔
کانگریس پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کا جموںکشمیر سے ایک خاص تعلق ہے ۔ راہل گاندھی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ان کا کشمیر سے خون کا رشتہ ہے ۔ اگر وہ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں ‘ اس پر یقین رکھتے ہیں تو پھر انہیں اپنے اس دعوے کو سچا ثابت کرنا ہو گا ۔ ان سب باتوں کو بھی سچا ثابت کرنا ہو گا ‘ جو ان کی جماعت کے لوگ کشمیر آکر کرتے ہیں ۔
آنے والا مانسون اجلاس کانگریس پارٹی کیلئے ایک سنہری موقع ہے ۔ اس لئے بھی ہے کیونکہ حالیہ کچھ دنوں سے ریاستی درجے کی بحالی کے حوالے سے بہت ساری باتیں سامنے آ رہی ہیں ‘ جن سے کنفیوژن پیدا ہوا ہے ۔کوئی ریاستی درجے کی بحالی کیلئے موجودہ اسمبلی کو تحلیل کرنے کو آئینی ضرورت قرار دیتا ہے جبکہ کسی کی رائے میں وزیر اعلیٰ کو مستعفی ہوکر درجے کی بحالی کی راہ ہموار کرنی چاہئے۔
مرکز بالکل خاموش ہے ۔لیکن بہ حیثیت سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ‘ مرکزکی اس خاموشی کو توڑ سکتی ہے اور اسے مانسون اجلاس میں جموںکشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کو کہہ سکتی ہے کیونکہ اس کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ ریاستی درجے کی بحالی اس کیلئے اولین ترجیح ہے ۔