سرینگر//
حکومت ہند نے پاکستان کے ساتھ انڈس واٹر ٹریٹی (آئی ڈبیلو ٹی) کو عارضی طور پر معطل رکھنے کے فیصلے کے بعد شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں واقع طویل عرصے سے تعطل کا شکار تلبل نیوی گیشن پروجیکٹ (ولر بیراج) کو دوبارہ بحال کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے ۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے وادی کشمیر میں پانی کی دستیابی، بجلی کی پیداوار اور نیوی گیشن کے شعبے میں نمایاں بہتری کی توقع ہے ۔
یہ منصوبہ، جو دریائے جہلم کے کنارے ولر جھیل کے دہانے پر سوپور کے نزدیک واقع ہے ، ابتدائی طور پر ۱۹۸۰کی دہائی میں تجویز کیا گیا تھا تاکہ پانی کے بہاؤ کو منظم کیا جا سکے اور سرحدی علاقوں، خاص طور پر اوڑی میں واقع پن بجلی منصوبوں کیلئے مستقل آبی وسائل فراہم کیے جا سکیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق اس پروجیکٹ کا تقریباً۹۰فیصد کام۲۰۱۶تک مکمل ہو چکا تھا، تاہم پاکستان کی جانب سے انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے سخت اعتراضات کے باعث کام روک دیا گیا۔
پاکستان نے اسے پانی ذخیرہ کرنے والا منصوبہ قرار دیا، جو معاہدے کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے ۔ تاہم ہندوستان نے مستقل یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ محض ایک ’نیوی گیشن لاک‘ہے جو آرٹیکل۹کے تحت جائز ہے ۔
مرکزی حکومت اب اس پروجیکٹ کو ایک سرکاری ہائیڈرو پاور کمپنی کے سپرد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ وہیں سے کام دوبارہ شروع کیا جا سکے جہاں یہ رُکا تھا۔ حکام نے بتایا کہ جموں و کشمیر انتظامیہ سے تازہ ترین تفصیلات طلب کر لی گئی ہیں تاکہ ایک مکمل بحالی منصوبہ تیار کیا جا سکے ۔
ایک سینئر افسر کے مطابق’ہم نہ صرف تلبل نیوی گیشن پروجیکٹ بلکہ ان دیگر منصوبوں کو بھی بحال کرنا چاہتے ہیں جنہیں پاکستان کے اعتراضات کی وجہ سے روکا گیا تھا‘۔
تلبل منصوبہ۱۹۸۴میں مرکزی حکومت کی جانب سے شروع کیا گیا تھا۔ منصوبے کے تحت۴۳۹فٹ لمبی اور۴۰فٹ چوڑی بیراج تعمیر کی جانی تھی، جس کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت۳۰ء۰ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) تھی۔ اس کا مقصد بالخصوص خزاں اور سردیوں میں دریائے جہلم کے پانی کے بہاؤ کو برقرار رکھنا تھا جب پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو جاتی ہے ۔
تاہم۱۹۸۵میں پاکستان کی جانب سے اعتراضات کے بعد کام روک دیا گیا اور۱۹۸۶میں اسلام آباد نے یہ معاملہ انڈس واٹر کمیشن میں اٹھایا، جس کے بعد۱۹۸۷میں تمام تعمیراتی سرگرمیاں مکمل طور پر معطل کر دی گئیں۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیر تاج محی الدین نے ۲۰۱۰میں اس منصوبے کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۶تک منصوبے پر۹۰فیصد کام مکمل ہو چکا تھا اور وہ بھی۱۹۸۰کی لاگت سے کافی کم خرچ پر۔ تاہم بعد کی حکومت نے اس منصوبے کو بغیر کسی وجہ کے بند کر دیا۔
تقریباً دو برس بعد نامعلوم دہشت گردوں نے اس پروجیکٹ کے لیے تعمیر کردہ باندھ پر گرینیڈ سے حملہ کیا، تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
تاج محی الدین نے یو این آئی کو بتایا’’یہ منصوبہ کشمیر کے مفاد میں ہے ، اسے منطقی انجام تک ضرور پہنچنا چاہیے ‘‘۔
اوڑی میں قائم تین پن بجلی منصوبے گرمی میں تو مکمل صلاحیت کے ساتھ کام کرتے ہیں، مگر سردیوں میں پانی کی کمی کی وجہ سے ان کی پیداوار۲۰فیصد سے بھی کم ہو جاتی ہے ۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ تلبل بیراج ان موسمی اتار چڑھاؤ کو متوازن بنانے میں مدد دے گا، جس سے سال بھر بجلی کی پیداوار ممکن بنائی جا سکتی ہے ۔
تلبل نیوی گیشن پروجیکٹ کی بحالی کشمیر کے لیے نہ صرف اقتصادی لحاظ سے ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے بلکہ یہ انڈس واٹر ٹریٹی پر نئی سفارتی سمت کا بھی اشارہ ہے ۔ حکومت ہند کا موجودہ رویہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اب معاہدے کے یکطرفہ نفاذ سے تنگ آ چکی ہے اور ملک کے مفادات کو ترجیح دینے کے لیے تیار ہے ۔
اگرچہ پاکستان مسلسل اس مؤقف پر قائم ہے کہ تلبل اسٹرکچر ایک ذخیرہ آب ہے جو انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی کے زُمرے میں آتا ہے ، لیکن نئی دہلی کا مؤقف ہے کہ یہ ایک ’نیویگیشن لاک‘ہے جس کا مقصد سال بھر آبی نقل و حمل اور پانی کے بہاؤ کو منظم رکھنا ہے ، اور یہ معاہدے کے آرٹیکل۹کے تحت بالکل جائز ہے ۔
یہ منصوبہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان برسوں جاری رہنے والے جامع مذاکرات کے آٹھ کلیدی موضوعات میں شامل تھا، تاہم طویل گفت و شنید کے باوجود اس معاملے پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔