جموں//
ٹی۷۲ ٹینک کنٹرول لائن کے قریب پہنچ گئے تھے اور۷ مئی کے آپریشن سندور میں حصہ لیا تھا جس نے پاکستان اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں ۹مقامات پر دہشت گردی کے ٹھکانے تباہ کیے تھے۔
ایک بھارتی فوج کے افسر نے این ڈی ٹی وی کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا۔
یہ ٹینک اوربی ایم پی۲ اب بھی کنٹرول لائن کے ساتھ تعینات ہیں جواس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ فوج کی تیاری کا درجہ بلند ہے حالانکہ پاکستاں کے ساتھ جاری جنگ بندی ہے۔
این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے، ایک کرنل، جن کا نام حفاظتی خدشات کی وجہ سے نہیں بتایا جا رہا، نے کہا کہ انہیں آپریشن سندور سے پہلے مخصوص ہدف کے خلاف کارروائی کیلئے تعینات کیا گیا تھا۔ اس آپریشن میں، ان کا اہم کردار یہ تھا کہ دہشت گردوں کے ہندوستان میں داخل ہونے کے راستے تباہ کریں ۔ یہ ایک پیشگی اقدام کے طور پرتھا۔
کرنل نے این ڈی ٹی وی کو بتایا’’ہم نے بھی دشمن کے ان ٹھکانوں پر حملہ کیا جو دراندازی کی سہولت فراہم کر رہے تھے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کون سے ٹھکانے دشمن کے لیے دراندازی کی بنیاد کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ ایک باخبر فیصلہ کیا گیا اور اہداف کو نشانہ بنایا گیا‘‘۔
فوجی افسر نے کہا کہ ان کے مہلک درستگی کی وجہ سے ٹینکوں کو احتیاط سے استعمال کیا گیا تاکہ صورت حال میں مزید شدت نہ آئے۔
ٹی ۷۲ ٹینکوں میں ۱۲۵ ملی میٹر کے توپیں لگائی گئی ہیں’’اور ہمارے پاس ۴۰۰۰ میٹر کی رینج والے میزائل بھی ہیں‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف ایک چھوٹے سے حصے کا سامان جنگ بندی کی خلاف ورزی کے خلاف استعمال کیا گیا۔۳۰۰ ملی میٹر بندوقیں اور ۴۰۰۰ میٹر کے میزائل دشمن پر تباہ کن اثر ڈال سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ فوج اور سامان کسی بھی وقت حرکت کے لیے تیار ہیں جب بھی حکم ملے۔
آپریشن سندور۷ مئی کو شروع کیا گیا … یہ جموں و کشمیر کے پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے خوفناک دہشت گردانہ حملے کے خلاف ایک جوابی کاروائی تھی، جس میں۲۲؍ اپریل کو۲۵ بھارتی اور ایک نیپالی سیاح ہلاک ہوئے تھے۔بھارتی جوابی کارروائی نے لشکر طیبہ کے ہیڈکوارٹرز کو نشانہ بنایا … جس کی ایک پراکسی نے پہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور جیش محمد۔۱۰۰ سے زائد دہشت گرد مارے گئے، جن میں سے چندی مختلف حملوں کے لیے مطلوب تھے جن میں ۱۹۹۹میں بھارتی ایئر لائن کے طیارے کو قندھار، افغانستان میں ہائی جیک کرنے کا واقعہ بھی شامل ہے۔
جبکہ فضائیہ کا کردار اور فوج کی پیادہ ڈویڑن کی تعریف کی گئی، انتہائی کم معلومات تھی کہ زرہ پوش ڈویڑن کا کیا کردار تھا۔
بھارت نے کہا تھا کہ اس کی کارروائی نپی تلی تھی تھی۔پاکستان نے فوراً میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے جواب دینے کی کوشش کی لیکن اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔۱۰ مئی کو ایک جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا۔اب مرکزی حکومت ۵۱ سیاسی رہنماؤں، پارلیمانی نمائندوں اور سابق وزیروں کی ایک ٹیم بھیج رہی ہے، جو جماعتوں کی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے اہم ممالک کا سفر کریں گے تاکہ آپریشن سندھور کے پس منظر میں بھارت کی عزم کو دہشت گردی کے خلاف پیش کر سکیں۔
اس دوران فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے حالیہ فوجی تصادم کے دوران پاکستان نے ڈرونز اور میزائلوں سے امرتسر میں واقع سکھوں کے مذہبی مقام گولڈن ٹیمپل کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی بھارت نے پاکستان پر سکھوں کے مذہبی مقامات کو نشانہ کا الزام لگایا جاتا رہا ہے تاہم پاکستانی ریاست اور فوج کی جانب سے اس کی تردید کی گئی ہے۔
بھارتی فوج کی۱۵ویں انفینٹری ڈویڑن کے میجر جنرل کارتک سی شیشادری نے خبر رساں ادارے اے این آئی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انڈیا کی جانب سے سات مئی کو پاکستان میں مبینہ دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے سے قبل ہی ارلی وارننگ اور ایئر ڈیفنس نظام کو فعال کر دیا گیا تھا۔
شیشادری کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج کو اندازہ تھا کہ پاکستانی فوج بھارتی حملوں کے جواب میں فوجی اور سول تنصیبات بشمول مذہبی مقامات کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ ’’ہمارے پاس انٹیلی جنس معلومات موجود تھی کہ گولڈن ٹیمپل بھی ممکنہ بڑے ایداف میں سے ایک ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ گولڈن ٹیمپل کی حفاظت کے لیے بھارتی فوج نے ایئر ڈیفنس سسٹم کو فعال کر دیا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ آٹھ مئی کو پاکستان نے ڈرونز اور میزائلوں کے ذریعے گولڈن ٹیمپل پر حملہ کیا جسے ناکام بنا دیا گیا۔
بھارتی فوج کے مطابق پاکستانی ڈرونز اور میزائلوں کو مار گرانے کے لیے بھارت نے آکاش میزائل سسٹم اور ایل۷۰ ایئر ڈیفنس بندوقیں استعمال کیں۔
گذشتہ ماہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام پر دہشت گردوںکے حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی اس وقت باقاعدہ فوجی تصادم کا رخ اختیار کر گئی جب ۷ مئی کو بھارت نے پاکستان اور اس کے زیر قبضہ کشمیر میں مختلف مقامات کو نشانہ بنایا۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان اس دعوے کی تردید کرتا آیا ہے۔
چار روز تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد بالآخر۱۰ مئی کو نھارت اور پاکستان نے سیز فائر کا اعلان کیا تھا۔