سرینگر//
ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے حالیہ انکشافات نے جموں و کشمیر کی سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا ہے ۔
اپنی نئی کتاب میں دلت نے دعویٰ کیا ہے کہ نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے آرٹیکل۳۷۰کی منسوخی کی ’ذاتی طور پر حمایت‘کی تھی۔
اس انکشاف کے بعد سیاسی حلقوں میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے ، خاص طور پر جموں و کشمیر کی علاقائی جماعتوں کی جانب سے ۔
پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون نے اس انکشاف پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ۴؍اگست۲۰۱۹کو ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور وزیر اعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات کبھی ان کے لیے راز نہیں رہی۔
لون نے ایکس پر لکھا’’فاروق صاحب کے ساتھ قریبی تعلقات کی روشنی میں دلت صاحب کا دعویٰ قابل اعتبار ہے ۔ نیشنل کانفرنس اس دعوے کی تردید کرے گی اور روایتی انداز میں سازش کا شکوہ کرے گی ، یہی ان کا پرانا اسکرپٹ ہے ‘‘۔
پی سی صدر نے مزید الزام لگایا’’نیشنل کانفرنس عوام کے سامنے خود کو مظلوم ظاہر کرتی ہے ، جبکہ ان کے ایم ایل اے خاموشی سے بی جے پی رہنماوں سے ملاقات کرتے ہیں اور کھوئے ہوئے بھائیوں کا تاثر دیتے ہیں۔ میں ہمیشہ سمجھتا رہا ہوں کہ۲۰۱۹کے واقعات پہلے سے طے شدہ تھے اور۲۰۲۴میں ملنے والا انعام اب معنی خیز لگتا ہے ‘‘۔
لون نے مزید لکھا’’دلت صاحب کے انکشافات فاروق صاحب کی دہلی سے قربت اور دفعہ ۳۷۰کے خاتمے سے قبل پس پردہ ہونے والے معاملات پر روشنی ڈالتے ہیں‘‘۔
ادھر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی، التجا مفتی نے بھی فاروق عبداللہ پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ انہوں نے آرٹیکل۳۷۰کی منسوخی کے دہلی کے فیصلے کا ساتھ دیا۔
التجانے ایکس پر لکھا’’دلت صاحب، جو عبداللہ خاندان کے قریبی سمجھے جاتے ہیں، نے انکشاف کیا ہے کہ فاروق صاحب نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے مرکزی اقدام کی خاموش حمایت کی۔ بجائے اس کے کہ وہ پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر اس اقدام کی مخالفت کرتے ، وہ سرینگر میں خاموش رہے اور حالات کو معمول پر لانے میں اپنا کردار ادا کیا‘‘۔
پی ڈی پی لیڈر نے مزید کہا’’جموں کشمیر کے آئینی ڈھانچے کو منہدم کرنے سے چند روز قبل وزیر اعظم اور فاروق عبداللہ کے درمیان ہونے والی ملاقات ہمیشہ مشکوک رہی ہے ۔ اب یہ شکوک مزید تقویت اختیار کر چکے ہیں، جو جموں و کشمیر کے ساتھ غداری کے مترادف ہے ‘‘۔
واضح رہے کہ سابق را چیف اے ایس دلت نے اپنی نئی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ فاروق عبداللہ آرٹیکل ۳۷۰کی منسوخی پر ’دہلی کے ساتھ کام کرنے‘کیلئے تیار تھے ، بشرطیکہ ان سے مشورہ کیا جاتا‘‘۔
دلت کے مطابق’’فاروق عبداللہ نے انہیں بتایا تھا کہ ان کی جماعت، نیشنل کانفرنس’’جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں بھی اس کی حمایت میں قرارداد منظور کر سکتی تھی‘‘۔
سابق را سربراہ نے کتاب میں مزید لکھا ’’سال۲۰۲۰میں جب فاروق عبداللہ سے ملا تو انہوں نے مجھے بتایا’ہم نے مدد کی ہوتی، ہمیں اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا؟‘‘
دلت مزید لکھتے ہیں کہ آرٹیکل۳۷۰کی منسوخی سے کچھ دن قبل، فاروق اور عمر عبداللہ نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔’’اس ملاقات کے دوران کیا ہوا، یہ کوئی کبھی نہیں جان پائیگا۔ فاروق نے اس بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا۔‘‘