کہتے ہیں کہ ماہ رمضان میں نیک اعمال کا اجر بڑھ جاتا ہے… اس کی قدر بڑھائی جاتی ہے… نفل کو فرض کا ثواب اور ایک فرض کو ۷۰ فرضوں کا ثواب …اسی لئے لوگ اس ماہ رحمت میں اچھے کاموں میںایک دوسرے پر سبقت لینے کی بھی کوشش کرتے رہتے ہیں… لیکن … لیکن ایک چیز جس کی قدر اس ماہ میں گھٹ جاتی ہے‘ کم ہو جاتی ہے وہ ہے روپے پیسے … نہیں جناب قدر میں کمی کا تعلق بازار حصص یا ڈالر کی ریٹوں کے ساتھ بالکل بھی نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے… اس کا تعلق اگر ہے تو… تو براہ راست ماہ صیام سے ہے‘ کسی اور سے نہیں … بالکل بھی نہیں ۔ماہ صیام کو چھوڑ کر دوسرے مہینوں میں دس روپے کا جو نوٹ مسافر ‘گداگر ہنسی خوشی سے پکڑتے ہیں… اور اس کے بدلے میں آپ کو ہول سیل میں دعائیں…دکھاوے کی اور نقلی و جعلی دعائیں بھی دیتے ہیں… وہ اس ماہ میں دس روپے کی اور دیکھتے بھی نہیں ہیں…انہیں دیکھنا پسند نہیں ہے ۔ دس روپے کو دیکھ کر ان کی ناک ساتوں آسمان پرچڑھ جاتی ہے… ان کا ردعمل دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے آپ نے انہیں دس روپے نہیں بلکہ ایک روپے کا نوٹ دیاہو… ہمیں نہیں لگتا ہے اور… اور بالکل بھی نہیں لگتا ہے کہ کشمیر کے علاوہ کہیں اور کسی جگہ کوئی بھکاری ‘ کوئی گداگر دس روپے کا نوٹ اس طرح سے ٹھکراتا ہے… ٹھکرائے گا… یقینا نہیں ٹھکرائے گا ‘ لیکن… لیکن جس طرح کشمیر میں غیر مقامی مزدوروں کو اچھی اجرتیں اور مزدوری دی جاتی ہے… اسی طرح بھیک بھی اچھی اور موٹی دی جاتی ہے… اور اسی بات نے ان کا دماغ خراب کردیا ہے… جی ہاں دماغ کر دیا ہے جو وہ ماہ رحمت میں اتنی ’موٹی ‘ اور’ خطیر‘ رقم لینے سے انکار کرتے ہیںاور… اور اس لئے کرتے ہیں کہ کشمیر میں گداگروں کا ایک منظم مافیہ ہے ‘ جن کا پیشہ‘ جی ہاں جن کا پیشہ بھیک مانگنا ہے… اور یہ لوگ جانتے ہیں … یہ جانتے ہیں کہ کشمیر میں لوگ ماہ رحمت میں سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور… اوراسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہو ئے یہ دس بیس روپے کے’چھوٹے‘ نوٹ ٹھکراکر بڑے نوٹوں کا تقاضہ کرتے ہیں… اپنا حق …پیدائشی حق جان کر تقاضہ کرتے ہیں ۔ ہے نا؟