بی جے پی ایک بھی بڑے پروجیکٹ کا نام بتائے جو ۳۷۰کے ہوتے مکمل نہیں ہو تا :وزیر اعلیٰ
’۱۳جولائی کے شہدا کا ایک ہی قصور تھا کہ وہ مسلمان تھے ‘ بی جے پی نے مہاراجہ ہری کے قوانین کو ختم کیا ‘
جموں//
وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعرات کو کہا کہ کوئی بھی آرٹیکل۳۷۰پر بات کرنے کا شہریوں سے حق نہیں چھین سکتا ہے ۔’’ کچھ لوگ ہمیں ڈرانے دھمکانے اور خاموش کرانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کی پارٹی جموں و کشمیر کے لوگوں کے حقوق کے لئے اپنی لڑائی جاری رکھے گی‘‘۔
لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے خطاب پر تحریک تشکر پر بحث کاجواب دیتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ سابق ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں شامل کرنے سے جموں و کشمیر کا وقار ختم ہوگیا ہے۔
وزیر اعلیٰ کاکہنا تھا’’…میں اپنی ذات کیلئے ریاست کا درجہ حاصل کرنے کی لڑائی نہیں لڑ رہا ہوں، یہ لڑائی جموں و کشمیر کے مفاد میں ہے۔ جو کام ہم کرنا چاہتے ہیں انہیں عملی شکل تب ہی دی جاسکتی ہے جب ہمیں ریاست کا درجہ واپس مل جائے۔ وہ چیزیں جو ہم واپس چاہتے ہیں اور جن چیزوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
پیپلز کانفرنس کے رکن اسمبلی سجاد غنی لون کے اس مطالبے کا حوالہ دیتے ہوئے کہ کابینہ اجلاس میں قرارداد منظور کرنے کے بجائے ریاست کا درجہ بحال کرنے کے لئے ایوان میں ایک قرارداد منظور کی جانی چاہئے تھی ، انہوں نے کہا کہ اس طرح کی قرارداد جان بوجھ کر ایوان میں پیش نہیں کی گئی کیونکہ ہر رکن اس مطالبے کی حمایت کرتا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا’’ریاست کو (مرکز کے زیر انتظام علاقے میں) گرانے کے ساتھ ہی ہمارا وقار ختم ہو گیا ہے۔ اگر آپ اس پر کوئی قرارداد پیش کرنا چاہتے ہیں تو براہ مہربانی آگے بڑھیں اور ہم آپ کی حمایت کریں گے‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ ریاست کے قیام کی لڑائی سچائی، انصاف اور قانون پر مبنی ہے اور اس کی بحالی سے جموں و کشمیر کے لوگوں کو راحت ملے گی۔
وزیر اعلیٰ نے کہا ’’ہم اس لڑائی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بعض اوقات کچھ لوگ ہمیں ڈرانے دھمکانے، دھمکانے اور خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ ہم عوام کے حقوق، ان کے وقار، ترقی اور بھائی چارے کیلئے اپنی لڑائی جاری رکھیں گے‘‘۔
تاہم انہوں نے ان لوگوں کی نشاندہی نہیں کی جو مبینہ طور پر نیشنل کانفرنس کے ممبران اسمبلی کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر سنیل شرما کی تقریر پر سخت تنقید کرتے ہوئے عمرعبداللہ نے کہا کہ وہ (شرما) کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل۳۷۰پر بولنا ایوان کا وقت برباد کرنے کے مترادف ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بی جے پی ارکان تھے جنہوں نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی آئینی شق کے بارے میں سب سے زیادہ بات کی۔
مرکز نے اگست۲۰۱۹میں آرٹیکل۳۷۰ کو منسوخ کردیا تھا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا’’مجھے یہ مت بتائیں کہ سپریم کورٹ نے دفعہ ۳۷۰کی منسوخی پر اپنی مہر لگا دی ہے۔ فیصلوں پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے اور حکومت بدل تی ہے لیکن مجھے یہ مت بتائیں کہ یہ (آرٹیکل ۳۷۰) واپس نہیں آئے گا‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا’’ ہم کہتے ہیں کہ یہ واپس آئے گی اور آپ اپنی امید کے ساتھ رہیں گے اور ہم بھی اپنی امید کے ساتھ رہیں گے۔ کون جانتا ہے کہ آگے کیا ہوگا، ۔آپ ہم سے اس مسئلے پر بات کرنے کا حق نہیں چھین سکتے ہیں۔‘‘
وزیر اعلی عمر عبداللہ نے لوگوں کو یقین دلایا کہ نیشنل کانفرنس کی زیرقیادت حکومت اپنے تمام انتخابی وعدوں کو پورا کرے گی جس میں قیدیوں سے متعلق وعدے اور سرکاری ملازمین کو’من مانے‘طور پر برطرف کرنا شامل ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان کی حکومت پورے پانچ سال کیلئے تشکیل دی گئی ہے ۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اسمبلی کے اگلا بجٹ اجلاس کا آغاز لیفٹیننٹ گورنر کے بجائے گورنر کریں گے۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کے منشور کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے جو ہم نے بہت سوچ سمجھ کر تیار کیا ہے اور یہ جموں و کشمیر کے عوام سے ہمارا وعدہ ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا ’’جب ہم نے اپنا منشور عوام کے سامنے رکھا تو ہم نے ان سے کہا کہ ہمیں پانچ سال دیں… ہم عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اے سے زیڈ تک کے تمام وعدوں کو پورا کریں گے، چاہے وہ قیدیوں سے متعلق ہوں یا سرکاری ملازمین کی برطرفی سے متعلق ہوں۔ ہم ایسا کرنے کے پابند ہیں‘‘۔
نیشنل کانفرنس نے اپنے منشور میں سیاسی قیدیوں اور نوجوانوں کی رہائی کو ترجیح دینے کا وعدہ کیا تھا جنہیں جیلوں میں غیر منصفانہ طور پر نظربند کیا گیا ہے اور وہ سنگین جرائم میں ملوث نہیں ہیں۔
منشور میں سرکاری ملازمین کی’غیر منصفانہ‘ برطرفی کو ختم کرنے کی بھی بات کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ’یہ غیر منصفانہ ملازمت سے برطرفی کے معاملات کو حل اور درست کرے گا، تمام ملازمین کے ساتھ منصفانہ سلوک اور ملازمت کے تحفظ کو یقینی بنائے گا‘۔
ایل جی کے خطاب پر کچھ ممبروں کی تنقید کا حوالہ دیتے ہوئے عمرعبداللہ نے کہا کہ ایل جی حکومت کی تشکیل کے فوراً بعد نومبر کے اجلاس میں کی گئی اپنی سابقہ تقریر کو تبدیل نہیں کرسکتے ہیں اور یہ اس تقریر کے علاوہ ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا’’کچھ (ممبران) نے اسے (نیشنل کانفرنس سے بی جے پی کو) محبت کا خط قرار دیا۔ میں اس میں نہیں جاؤں گا لیکن یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم نے نئے اضافے کیے ہیں اور مجھے امید ہے کہ اگلے سال جب ہم (بجٹ سیشن کے لئے) ملیں گے تو لیفٹیننٹ گورنر کے بجائے ایک گورنر ہوگا‘‘۔
عمرعبداللہ نے اپوزیشن لیڈر سنیل شرما کی پبلک سیفٹی ایکٹ کے استعمال کا دفاع کرتے ہوئے تقریر کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ اگر آپ پی ایس اے کا استعمال کررہے ہیں تو آپ کا کیس کمزور ہے۔ آپ نے مجھے (دفعہ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد) چھ مہینے کے لئے احتیاطی حراست میں رکھا کیونکہ میرے خلاف کوئی الزام نہیں تھا۔ لیکن یہ بہتر ہے کہ پتھراؤ کرنے والوں یا اوور گراؤنڈ کارکنوں کے خلاف قانون کی متعلقہ دفعات کا استعمال کیا جائے جن کے خلاف پی ایس اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے دفعہ ۳۷۰ کو ترقی اور دہشت گردی سے جوڑنے کے لئے شرما سے سوال کیا اور کہا کہ ’’کیا انہوں نے جن ترقیاتی منصوبوں کی بات کی ہے وہ صرف دفعہ ۳۷۰کی منسوخی کے ساتھ ہی ممکن ہیں‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ ان میں سے زیادہ تر پروجیکٹ ۲۰۱۴ سے پہلے شروع ہوئے تھے اور انہوں نے بی جے پی لیڈر کو چیلنج دیا کہ وہ ایوان کو ایک ایسے پروجیکٹ کے بارے میں بتائیں جو آرٹیکل ۳۷۰؍ اسٹیٹس کے تحت مکمل کرنا ممکن نہیں ہے۔
عمرعبداللہ نے درج فہرست قبائل برادری کو دیئے گئے سیاسی ریزرویشن پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ ایوان میں گجر رہنماؤں کی تعداد نو سے گھٹ کر چھ ہوگئی ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا’’آرٹیکل۳۷۰ کی منسوخی کے بعد کیا معجزہ ہوا؟ بی جے پی کے شکتی راج پریہار نے اقربا پروری، بدعنوانی اور دہشت گردی کے خاتمے کی بات کی جبکہ ایل او پی دہشت گردی کے لئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہے۔ کون صحیح ہے؟ اگر دہشت گردی کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے تو پھر دفعہ۳۷۰ کو کیوں مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اگر دفعہ ۳۷۰ذمہ دار تھی تو اس کی منسوخی کے بعد جموں خطے میں دہشت گردی کیوں پھیلی، وہ علاقے جنہیں میرے (پچھلے) دور حکومت میں دہشت گردی سے پاک قرار دیا گیا تھا‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں میں ریاسی میں یاتریوں، راجوری اور دیگر مقامات پر شہریوں پر حملے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آرٹیکل ۳۷۰دہشت گردی کے لئے ذمہ دار نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ بی جے پی ارکان نے جل جیون مشن میں دھوکہ دہی کا مسئلہ اٹھایا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بدعنوانی ختم نہیں ہوئی ہے۔
وزیرا علیٰ نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے جموں کشمیر کے آخری ڈوگرہ حکمران‘مہاراجہ ہری سنگھ کا جموں کشمیر کا نقشہ توڑمروڑ کر رکھا بلکہ ان کے پشتینی لوگوں کے حقوق کیلئے بنائے گئے قوانین کو بھی ختم کیا ۔
وزیر اعلیٰ نے نیشنل کانفرنس (این سی) پر جموں و کشمیر کے آخری حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی توہین کرنے کا الزام لگانے پر بی جے پی رہنماؤں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں چیلنج کیا کہ وہ صرف ایک مثال دیں جب حکمراں جماعت یا کشمیر کی کسی دوسری پارٹی نے ڈوگرہ حکمران کی توہین کی ہو جبکہ بی جے پی بکھر گئی اور اس کی مسلم اکثریتی ریاست کا درجہ کم کیا۔
جموں و کشمیر اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر (ایل او پی) اور بی جے پی لیڈر سنیل شرما کی جانب سے حکمراں پارٹی پر مہاراجہ کی توہین کا الزام عائد کرنے کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے اپوزیشن پارٹی کو چیلنج کیا کہ وہ انہیں ایک بھی مثال دے جب آخری ڈوگرہ حکمران کی نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی اور کانگریس نے توہین کی ہو۔
وزیر اعلیٰ نے کہا’’آپ نے لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کرکے اور ان کے قوانین کو ختم کرکے مہاراجہ کے نقشے کو توڑ مروڑ کررکھا‘خاص طور پر زمین اور نوکریوں سے متعلق جو لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے بنائے گئے تھے‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ بی جے پی یہ کہہ کر لداخ کی علیحدگی کا جواز پیش کر رہی ہے کہ یہ لداخ کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ ہے۔
ان کاکہنا تھا’’کیا تم نے ان سے پوچھا ہے؟ کیا آپ نے جاننے کی کوشش کی ہے؟ کرگل کے لوگ پہلے دن سے ہی اس فیصلے کے خلاف تھے۔ لداخ کے بدھ مت کے پیروکار جنہوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں، آج ان کی رائے ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے ساتھ بہتر پوزیشن میں تھے۔ وہ اپنے حقوق واپس حاصل کرنے کیلئے لیہہ سے دہلی تک پیدل چلے‘‘۔
وزیراعلیٰ نے ۱۳ جولائی۱۹۳۱ کے شہیدوں کے خلاف توہین آمیز ریمارکس پر اپوزیشن لیڈر کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگرچہ ہمارے سیاسی نظریات مختلف ہیں لیکن وہ آمریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کیلئے احترام کے مستحق ہیں اور ان کی قربانیوں کی وجہ سے یہ اسمبلی تشکیل دی گئی۔
۱۳جولائی کو جموں و کشمیر میں ۱۹۳۱میں سرینگر سینٹرل جیل کے باہر ڈوگرہ مہاراجہ کے فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے ۲۲؍ افراد کی یاد میں عام تعطیل کے طور پر منایا جاتا تھا۔ نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ کے یوم پیدائش کے موقع پر ۵ دسمبر کی تعطیلات کے ساتھ چھٹی کو لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ نے آرٹیکل۳۷۰ کی منسوخی کے بعد ختم کردیا تھا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا’’ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان تھے۔ ملک کے باقی حصوں میں آمریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے لوگوں کا احترام کیا جاتا ہے اور کوئی بھی انہیں غدار نہیں کہہ سکتا‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ ۱۳جولائی اور۵دسمبر کو تعطیلات کا اعلان کیا جائے یا نہ کیا جائے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ لوگ ان کا دل سے احترام کرتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ چیف منسٹر کی حیثیت سے اپنے آخری دور میں وہ چھٹیوں کی تعداد کو کم کرنے کا بھی منصوبہ بنا رہے تھے اور۵دسمبر بھی ان کے ذہن میں تھا۔انہوں نے کہا ’’ہم نے مہاراجہ کی وراثت کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا۔ کیا ہم نے ڈوگرہ حکمرانوں کے نام پر کسی ادارے کا نام تبدیل کیا ہے؟‘‘