سرینگر//
وزیر خارجہ ایس جئے شنکر ‘نے کہا ہے کہ پاکستان کے زیر قبضہ جموں کشمیر کو خالی کرنے سے مسئلہ کشمیر مکمل طور پر حل ہوجائے گا۔
وہ لندن میں قائم تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس میں حاضرین کے ایک رکن کے سوال کا جواب دے رہے تھے۔
سوال یہ تھا کہ کیا وزیر اعظم نریندر مودی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مسئلہ کشمیر کو’حل‘ کرنے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔
جے شنکر نے اگست ۲۰۱۹ میں حکومت کی جانب سے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت میں کی گئی متنازعہ تبدیلیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دفعہ ۳۷۰ کو ہٹانا پہلا قدم تھا۔
اس کے بعد کشمیر میں ترقی اور معاشی سرگرمیوں اور سماجی انصاف کی بحالی دوسرا قدم تھا۔
وزیر خارجہ نے کہا’’انتخابات کا انعقاد، جو بہت زیادہ ٹرن آؤٹ کے ساتھ کیا گیا تھا، تیسرا قدم تھا۔ میرے خیال میں ہم جس حصے کا انتظار کر رہے ہیں وہ کشمیر کے اس چوری شدہ حصے کی واپسی ہے جو غیر قانونی طور پر پاکستان کے قبضے میں ہے۔ جب ایسا ہو جائے گا تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کشمیر حل ہو جائے گا‘‘۔
مباحثے کے میزبان، چیتھم ہاؤس کے چیف ایگزیکٹو برونوین میڈوکس نے تجویز دی کہ کشمیر کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق پر بھی بہت سے سوالات ہیں۔
اس سے قبل لیبر پارٹی کی رکن پارلیمنٹ سارہ اسمتھ کی سربراہی میں ایوان نمائندگان میں جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کیلئے حکومت کی حمایت کے موضوع پر بحث ہوئی۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا بھارتی حکومت انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی کچھ کوتاہیوں کو تسلیم کرتی ہے، جے شنکر نے کہا کہ حکومت سیاسی وجوہات کی بنا پر انسانی حقوق کے بارے میں مہمات کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔
جئے شنکر نے کہا کہ ایسے حالات ہوسکتے ہیں جن کے تدارک اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عالمی موازنہ کرنے والوں کے مقابلے میں ہندوستان کا انسانی حقوق پر مضبوط ریکارڈ ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ میرے خیال میں انسانی حقوق کے بارے میں کسی بھی قسم کی تشویش واقعی غلط ہے۔ مجھے اس کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔
جئے شنکر نے اس سے پہلے بحث میں تمام ہندوستانی شہریوں کے لئے مساوی فوائد کی فراہمی کے خیال کا حوالہ دیا تھا … ایک ایسا تصور جس کا استعمال انہوں نے پہلے انسانی حقوق پر سرکاری ریکارڈ کا دفاع کرنے کیلئے کیا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیا کے کچھ حصوں میں ایک ایسی سیاست ہے جو شناخت کی سیاست کو’تخلیق‘ اور ’فروغ‘ دے کر چلایا جاتا ہے۔انہوں نے دلیل دی کہ اچھی سیاست’اپنے شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک‘ کے بارے میں ہے۔
ہندوستانی شہریوں، ہندوستان کے اندر اور باہر کی تنظیموں اور غیر ملکی حکومتوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے خدشات، تاہم، فوائد کی فراہمی کے علاوہ دیگر موضوعات پر دائرہ کار اور وسیع رہے ہیں۔