بئی دہلی18 فروری
چیف منسٹر عمر عبداللہ نے آج کہا کہ تین نئے فوجداری قوانین کو نافذ کرنا جموں و کشمیر میں منتخب حکومت کا مینڈیٹ نہیں ہے لیکن ان کی قیادت والی حکومت کو ان دفعات کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کےلئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیر داخلہ امیت شاہ کی جانب سے نئے فوجداری قوانین کے نفاذ کا جائزہ لینے کے لئے بلائی گئی میٹنگ میں شرکت کے بعد نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے عمر نے کہا”جہاں تک منتخب حکومت کا تعلق ہے، ان قوانین کو نافذ کرنا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ چونکہ یہ نئے قوانین ہیں، اس لئے لوگوں کو ان کے بارے میں معلوم ہونا چاہئے۔ اس کےلئے منتخب حکومت کو مزید کام کرنے کی ضرورت ہے“۔
وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر نے نفاذ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن کچھ کمزوریاںہیں جن کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ آج کی میٹنگ کے دوران جموں و کشمیر میں سلامتی کی صورتحال پر کوئی تبادلہ خیال نہیں کیا گیا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا”میں نے پارلیمنٹ کے احاطے میں وزیر داخلہ (امت شاہ) کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقات کے دوران جموں و کشمیر سے متعلق سیکورٹی امور پر تبادلہ خیال کیا تھا“۔
عمر نے مرکز کے زیر انتظام علاقے سے متعلق سیکورٹی جائزوں سے اپنے خارج ہونے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔انہوں نے کہا”اس ملاقات اور ان ملاقاتوں میں فرق ہے۔ یہ اجلاس نئے قوانین اور ان کے نفاذ کے بارے میں تھا۔ اگر عوام کی طرف سے منتخب کردہ نمائندوں کو سلامتی کے معاملات سے باہر رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو میں اس سے زیادہ کیا کہہ سکتا ہوں“؟
چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کے رد عمل پر عمر نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کو سلیکشن میٹنگ میں اختلاف رائے کا حق حاصل ہے۔ اپوزیشن کو ہمیشہ حکومت سے متفق ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ معاملہ (چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنر کے انتخاب کے لئے سلیکشن کمیٹی کی تشکیل سے متعلق) سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
جموں کشمیر میں نئے فوجداری قوانین کے نفاذ کا جائزہ لینے کے لئے مرکزی وزیر داخلہ کی صدارت میں اعلی سطحی اجلاس میں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور مرکزی اور جموں و کشمیر حکومت کے اعلی عہدیداروں نے بھی شرکت کی۔
گزشتہ سال یکم جولائی سے نئے فوجداری قوانین نافذ ہونے کے بعد بھارتیہ نیائے سنیتا، بھارتیہ ناگرک سرکشا سنگھیتا اور بھارتیہ سکشیہ ادھینیام نے نوآبادیاتی دور کے تعزیرات ہند (آئی پی سی)، ضابطہ فوجداری سی آر پی سی) اور انڈیا ایچ وی این ایویڈنس ایکٹ 1872 کی جگہ لے لی ہے۔