جو سیاسی جماعتیں ماتم منا رہی ہیں… ابھی تک گزشتہ سال کے اسمبلی الیکشن میں شکست کا ماتم منا رہی ہیں انہیں اللہ میاں کا شکر ادا کرنا چاہیے… اس بات کا شکر کہ انہیں اس الیکشن میں شکست ہو ئی… وہ یہ الیکشن ہار گئیں… خاص کر ان سیاسی جماعتوں کے سربراہاں جو جموں کشمیر کا وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش رکھتے تھے… انہیں شکر ادا کرنا چاہیے… وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ کا حال بے حال دیکھ ‘ ان کی بے بسی اور لا چارگی دیکھ کر انہیں اللہ میاں کے ہاں سجدۂ شکر بجالانا چاہیے کہ وہ عمرعبداللہ کی جگہ نہیں ہیں… وہ جموںکشمیر کے وزیر اعلیٰ نہیں ہیں کہ اس وقت جموں کشمیر کا وزیر اعلیٰ بننا بچوں کا کھیل نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے … اس کیلئے صبر ایوب چاہیے اور… اور ہم جانتے ہیں کہ صبر ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے… اور اس لئے نہیں ہے کہ عمرعبداللہ جو سہہ رہے ہیں… وہ ہر کوئی نہیں سہہ سکتا ہے… بالکل بھی نہیں سہہ سکتا ہے… عمرعبداللہ جتنے بے بس ہیں‘ ان جیسا بے بس کوئی اور نہیں ہو سکتا ہے… بالکل بھی نہیں ہو سکتا ہے… ایل جی صاحب جو چاہتے ہیں ‘ کر تے ہیں… کر گزرتے ہیں اور… اور وزیر اعلیٰ دیکھتے رہ جاتے ہیں… شب برأ ت پر جامع مسجد کو مقفل کرنا ‘ میرواعظ کو اس رات گھر میں نظر بند کرنا … ملازمین … سرکاری ملازمین کو بر طرف کرنا ‘ یہ سب کچھ وزیر اعلیٰ دیکھ رہے ہیں… اور صرف دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔چاہتے ہو ئے بھی کچھ نہیں کر پاتے ہیں… کر پاتے ہیں اور نہ کہہ پاتے ہیں… لیکن… لیکن کمال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہو ئے انہوں نے شب برأت کے موقع پر جامع مسجد کو مقفل کرنے کے فیصلے کو بد قسمتی سے تعبیر کیا … لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ بد قسمت تو عمرعبداللہ ہیں… اور اس لئے بد قسمت ہیں کیوں کہ یہ بے بس ہیں ‘ ان کے اختیار میں کچھ نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے… اس کے باجود بھی نہیں کہ… کہ یہ جمہوری طور پر منتخبہ وزیر اعلیٰ ہیں… انہیں جموں کشمیر کے لوگوں نے ایک مضبوط اور فیصلہ کن منڈیٹ دیا ہے… لوگوں نے انہیں اپنا مائی باپ قرار دیا… انہیں ان کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ لینے کا اختیار دیا… لیکن… لیکن یہ عمر عبداللہ جانتے ہیں… کوئی اور نہیں جانتا ہے کہ وہ کتنے بے اختیار ہیں… کتنے بے بس ہیں… اور اس ایک بات کیلئے ان کو شکریہ ادا کرنا چاہیے… اللہ میاں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جو …جو الیکشن… اسمبلی الیکشن ہار گئے ۔ ہے نا؟