نئی دہلی//
وزیر اعظم نریندر مودی نے آج اس بات پر زور دیا کہ ان کی حکومت نے غریبوں کو حقیقی ترقی دی ہے، خالی نعرے نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ کچھ پارٹیاں انتخابات کے دوران بہت سے وعدے کرتی ہیں لیکن یہ گروپ نوجوانوں کے مستقبل پر ’آفت‘ ہے۔
وزیر اعظم نے صدر جمہوریہ کے خطاب پر تحریک تشکر کا جواب دیتے ہوئے مزید کہا کہ یہ ان کی حکومت کی صرف تیسری مدت ہے اور وہ وکست بھارت کیلئے کئی سال تک کام کرتے رہیں گے۔
وزیر اعظم نے صدر جمہوریہ کے خطاب پر شکریہ کی تحریک کا جواب دیتے ہوئے کہا ’’پانچ دہائیوں تک ہم نے غریبی ہٹاؤ کا نعرہ سنا اور اب ہم نے۲۵ کروڑ لوگوں کو غربت سے باہر نکالا ہے‘‘۔
یہ بحث پیر کے روز اس وقت شروع ہوئی جب حکمراں قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کے ارکان نے حکومت کی کامیابیوں پر روشنی ڈالی جبکہ حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ نے کئی مسائل پر حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی۔
قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے پیر کے روز حکومت کی ناکام میک ان انڈیا پالیسی اور دیگر مسائل پر تنقید کی تھی۔
مودی نے اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کا نام لیے بغیر ان پر حملہ بولتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ غریبوں کے گھروں پر فوٹو سیشن کروا کر اپنا دل بہلاتے ہیں اس لیے انہیں پارلیمنٹ میں غریبوں کے بارے میں بات کرنا بورنگ لگتا ہے ۔ پچھلے دس سالوں میں ان کی حکومت کی کوشش رہی ہے کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ وہ لگن سے کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک سابق وزیر اعظم نے ملک میں بدعنوانی کے مسئلے کو پہچانا، اس لیے انہوں نے کہا کہ اگر دہلی سے ایک روپیہ جاتا ہے تو گاؤں میں صرف۱۵پیسے پہنچتے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک ماڈل تیار کیا ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک ڈیجیٹل نظام بنایا گیا ہے کہ عوام کا پیسہ عوام کے لیے ہو، غریبوں کو براہ راست فائدہ ملے اور غریبوں کو جو پیسہ مرکز سے ملتا ہے وہ براہ راست ان کے پاس جاتا ہے ۔ جس کے تحت ملک کے غریبوں کے کھاتوں میں لاکھوں کروڑوں روپے براہ راست پہنچ چکے ہیں۔ غریبوں کو براہ راست فائدہ دینے کے ساتھ، حکومت نے ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے غریبوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے بھی کام کیا ہے ۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ان کے سوچھ بھارت ابھیان کا مذاق اڑایا گیا، لیکن آج صورتحال ایسی ہے کہ سوچھ بھارت ابھیان کے تحت سرکاری دفاتر کا ردی بیچ کر۲۳۰۰کروڑ روپے حکومت کے کھاتے میں آچکے ہیں۔ یہ آمدنی اسی صفائی مہم سے ہوئی ہے جس کا پہلے کچھ لوگ مذاق اڑاتے تھے ۔ اسی طرح ایتھانول کے ذریعے کسانوں کو فائدہ ہو رہا ہے اور کسانوں کو ایتھانول سے ایک لاکھ کروڑ روپے ملے ہیں اور یہ رقم براہ راست کسانوں کی جیبوں میں گئی ہے ۔ پہلے اخباروں کی سرخیاں گھوٹالوں کے بارے میں ہوا کرتی تھیں، لیکن پچھلے دس سالوں میں کوئی گھوٹالہ نہیں ہوا اور اس رقم کو بچایا گیا اور ملک کے عوام کے مفاد میں استعمال کیا گیا۔ ان کی حکومت کو پیسہ ملا لیکن وہ شیشے کا محل بنانے میں نہیں بلکہ ملک بنانے میں استعمال ہوا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ مینوفیکچرنگ بجٹ بڑھ کر۱۱لاکھ کروڑ روپے ہو گیا ہے جو ۲۰۱۴سے پہلے ۲لاکھ کروڑ روپے سے کم تھا۔ ان کی حکومت نے ترقی کی مضبوط بنیاد رکھی ہے اور سرکاری خزانے میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔ حکومت نے ایسی اسکیمیں تیار کیں جن سے عوام کو فائدہ پہنچے ۔ آیوشمان یوجنا کے تحت عوام کے۲۰ء۱ لاکھ کروڑ روپے بچائے گئے ہیں۔ جن اوشدھی کی وجہ سے غریبوں کے لیے تقریباً ۱۰ہزار کروڑ روپے کی بچت ہوئی ہے ۔ انہوں نے نل سے پینے کے پانی سے متعلق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صاف پانی کی وجہ سے اوسطاً ایک خاندان پانی سے ہونے والی بیماریوں سے۴۰روپے بچاتا ہے ۔ مفت اناج اور مفت بجلی کی اسکیم سے بھی غریبوں کو ایک سال میں۲۵سے ۳۰ہزار روپے کی بچت ہوئی ہے اور اگر زیادہ بجلی ہے تو اسے اس سے اضافی فائدہ بھی مل رہا ہے ۔ ایل ای ڈی بلب سے بجلی کی بچت، بلب سستے اور اہل وطن کے ہزاروں روپے بچ گئے ۔
مودی نے کہا کہ گزشتہ دس سالوں میں انکم ٹیکس میں کمی کرکے متوسط طبقے کا بجٹ کم کیا گیا ہے ۔۲۰۱۴سے پہلے انکم ٹیکس کی’بندوق کی گولیوں‘سے اہل وطن کی زندگی چھلنی ہوتی تھی لیکن ان کی حکومت نے آہستہ آہستہ لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھا۔ سال۱۴۔۲۰۱۳میں انکم ٹیکس کی چھوٹ۲لاکھ روپے تھی جو اب بڑھ کر ۱۲لاکھ روپے ہو گئی ہے ۔ تنخواہ دار طبقے کو یکم اپریل سے چھوٹ کے بعد۷۵ء۱۳لاکھ روپے تک کی آمدنی پر انکم ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا۔
مودی نے کارٹونسٹ آر کے لکشمنن کے ایک کارٹون کا حوالہ دیا اور کہا کہ آج یہ درست ثابت ہو رہا ہے ۔ اس نے ایک کارٹ پر ہوائی جہاز رکھنے کا کارٹون بنایا تھا جو آج سچ ثابت ہو رہا ہے ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت کے وزیر اعظم نے صرف بڑی باتیں کیں اور زمین سے منقطع ہو کر ۲۱ویں صدی کی بات کی لیکن وہ ۲۰ویں صدی کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہے ، یہ اس پر طنز تھا۔