سرینگر//
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی نے بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار اور تلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کے سربراہ این چندرا بابو نائیڈو کو خط لکھ کر مجوزہ وقف ترمیمی بل کی مخالفت کرنے اور اسے قومی اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے سے روکنے کی اپیل کی ہے۔
اپنے خط میں جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ نے بل پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’غیر آئینی، ناقابل قبول اور آمرانہ‘ قرار دیا۔
محبوبہ نے دلیل دی کہ مجوزہ ترامیم وقف ایکٹ کے بنیادی مقصد کو براہ راست نقصان پہنچاتی ہیں ، جو مسلم کمیونٹی کیلئے مذہبی اور خیراتی مقاصد کیلئے وقف جائیدادوں کی حفاظت اور تحفظ کرنا ہے۔
پی ڈی پی صدر نے لکھا کہ یہ بل ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب گزشتہ ایک دہائی سے مسلمانوں کو منظم طریقے سے حق سے محروم کیا جا رہا ہے، انہیں بے اختیار اور سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر پسماندہ کیا جا رہا ہے۔
محبوبہ نے حکومت پر حزب اختلاف کے خدشات کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے پارلیمانی مشاورت کے عمل کو متاثرہ برادری کے ساتھ رابطے کی حقیقی کوششوں کے بغیر ایک ’تماشہ‘ قرار دیا۔
پی ڈی پی صدر نے مزید متنبہ کیا کہ یہ بل ’’ہمارے آئین کے ذریعہ ضمانت دیئے گئے بنیادی حقوق پر براہ راست حملہ‘‘ کی نمائندگی کرتا ہے اور’’اکثریت پسندی کی عکاسی کرتا ہے جس نے ۲۰۱۴ کے بعد سے تعصب اور مسلمانوں کو پسماندگی کو ہوا دی ہے‘‘۔
محبوبہ نے مہاتما گاندھی کے جامع ہندوستان کے وڑن کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل ملک کے سیکولر تانے بانے کے لئے خطرہ ہے۔
این ڈی اے حکومت کے دونوں اہم اتحادی نتیش کمار اور نائیڈو سے اپیل کرتے ہوئے محبوبہ نے ان پر زور دیا کہ وہ بل کو روکنے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں اور متنبہ کیا کہ اس کی منظوری سے قومی اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پی ڈی پی صدر نے کہا’’آپ ہمیشہ سے ہمارے آئین پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور گنگا جمنی تہذیب (مشترکہ ثقافت) کے جذبے کی مسلسل حمایت کرتے رہے ہیں۔ آج این ڈی اے کے اہم ارکان کی حیثیت سے آپ اس معاملے پر اثر انداز ہونے اور اس حملے کو روکنے کیلئے منفرد پوزیشن میں ہیں‘‘۔
مجوزہ وقف ترمیمی بل نے بڑے پیمانے پر بحث کو جنم دیا ہے ، جس میں حزب اختلاف کی جماعتوں اور اقلیتی تنظیموں نے سخت اعتراضات کا اظہار کیا ہے۔
اس دوران نیشنل کانفرنس (این سی) کے رکن پارلیمنٹ آغا روح اللہ مہدی نے کہا ہے کہ ’آخری اپیل‘ میں وہ بی جے پی کی حلیف جماعتوں جے ڈی (یو) اور تلگودیشم سے تعلق رکھنے والے ممبران پارلیمنٹ سے ملاقات کریں گے تاکہ مسلم کمیونٹی کے خدشات کا اظہار کیا جاسکے۔
روح اللہ نے کہا کہ جب سیشن شروع ہوگا تو میں نتیش کمار کی پارٹی (جے ڈی یو) اور چندرا بابو نائیڈو (ٹی ڈی پی) سمیت مختلف پارٹیوں کے ارکان سے ملاقات کروں گا۔ ان کی ریاستوں میں مسلم آبادی کافی ہے اور انہیں اس آبادی اور ان کے حقوق کے تئیں ایماندار ہونا چاہئے۔
سرینگر کے رکن پارلیمنٹ، جو اس معاملے پر غور کرنے والی پارلیمنٹ کی جوائنٹ کمیٹی کے ذریعہ بیان کے لئے بلائے گئے لوگوں میں شامل نہیں تھے، نے کہا کہ یہ بل ، جس میں وقف املاک کے انتظام میں تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی ہے ، مسلم برادری کے لئے ایک چیلنج ہے۔’’مستقبل میں ہمارے مذہب پر عمل کرنے کا حق ہمارے لیے کس طرح تشکیل پائے گا‘‘۔
روح اللہ وادی کے صرف تین ممبران پارلیمنٹ میں سے ایک ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ مسلم کمیونٹی کے نمائندے کی حیثیت سے ہمیں اس کا جواب دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا’’یقینا یہ ردعمل جمہوری اور حقیقی ہونا چاہئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حکومت نے جمہوری طریقوں کو اس طرح ڈیزائن کیا ہے کہ وہ اقلیتی برادری کی بات نہیں سنتی۔ لہذا ہمیں اس چیلنج کا جواب دینے کے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
وقف بل میں تشویش کے اہم مسائل پر روح اللہ نے عہدیداروں کو دیئے گئے اختیارات کے ساتھ ساتھ وقف بورڈ میں غیر مسلم ممبروں کو شامل کرنے کی شق پر بھی سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ وقف شریعت، قرآن اور حدیث سے اخذ کردہ قوانین کے مطابق کام کرتا ہے ، ’’جب کسی غیر مسلم کو وقف میں رکھا جاتا ہے تو یہ مداخلت کے مترادف ہے۔ اس سے وقف کے کام کرنے کی آزادی چھین لی گئی ہے‘‘۔
بدھ کے روز ایک غیر معمولی ملاقات میں روح اللہ نے میر واعظ عمر فاروق سے ملاقات کی جو وقف پینل کے سامنے پیش ہونے کیلئے گزشتہ ہفتے نئی دہلی آئے تھے اور تب سے راجدھانی میں ہیں۔
رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ وہ بنیادی طور پر میر واعظ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں تاکہ وقف پینل کو ان کی تجاویز پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔ روح اللہ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا ’’وہ ان چیلنجوں پر تبادلہ خیال کرنا چاہتے تھے جو ان کے خیال میں اس بل کے نتیجے میں ہمیں درپیش ہوں گے‘‘۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی ملاقات کے بارے میں کچھ بھی سیاسی نہیں تھا۔