ریاستی درجہ کی بحالی کے حوالہ سے مرکزی سرکار ’مناسب وقت ‘ کے اپنے موقف پر ثابت قدم ہے جبکہ جموں وکشمیر میں قائم نیشنل کانفرنس کی قیادت میں حکومت اور پارٹی بھی اس حوالہ سے بار بار عوام کو یہ یقین دلارہی ہے کہ جلد یا بہ دیر انہیں یقین ہے کہ وزیراعظم اور وزیرداخلہ اپنے اعلانات اور یقین دہانیوں کو عملی جامہ پہنائیں گے۔بادی النظرمیں نیشنل کانفرنس کے اس جلد یا بہ دیر اپروچ کو بھی کچھ ایک حلقے ایک اصطلاحات کے تعلق سے ’مناسب وقت ‘ ہی کا مشابہہ تصورکررہے ہیں ۔
تاہم کانگریس ، ریاستی درجہ کی بحالی کیلئے اپنے موقف پر قائم ہے اور بار بار مطالبہ کررہی ہے البتہ اپوزیشن سجاد غنی لون اس حوالہ سے کچھ اور ہی آرا رکھتے ہیں جبکہ اپنی پارٹی اسمبلی میں اپنی حالیہ شکست کے بعد خاموش سی پڑ گئی ہے لیکن محبوبہ مفتی کی قیادت میں پی ڈی پی اس حوالہ سے اپنی آواز کو زبان دیتی رہتی ہے ۔ مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقات کے بعد وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے ریاستی درجہ کی بحالی کے اپنے مطالبے کے حوالہ سے کہا کہ اس معاملے پر بات ہوئی اور اپنے اُسی یقین اوراُمید کا پھر سے اعادہ کیا کہ جلد یا بہ دیر درجہ بحال کیاجائے گا۔ تاہم حیرت انگیز طور سے جموںنشین بی جے پی اب خاموش ہے البتہ وقفے وقفے سے اس بات کا یہ کہکر اعادہ کیاجارہاہے کہ مناسب وقت پر ۔
جموںوکشمیر میں الیکشن کی تکمیل، حکومت کے قیام اور دوسرے اہم معاملات کے تعلق سے اطمینان بخش پیش رفت کے باوجود ریاستی درجہ کی بحالی کی سمت میں فیصلہ لئے جانے کیلئے مناسب وقت کا انتظار کیا جارہا ہے ۔ سنجیدہ فکر عوامی اور سیاسی حلقے اس تاخیر کو لے کر اب تشویشات اور خدشات کا برملا اظہار کررہے ہیں اور اس تاخیر کو جموںوکشمیر کے حوالہ سے خاص کر اور ملک کے لئے عمومی طور سے وسیع تر مفادات کیلئے سم قاتل خیال کررہے ہیں۔ مرکزی سرکار سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ تاخیر کو وسیع تر مفادات میںحاشیہ پر رکھیں اور عوام کے منڈیٹ کا احترام ملحوظ خاطر رکھیں۔ سنجیدہ سیاسی وعوامی حلقوں کا ماننا ہے اور اس بات پر زور بھی دیاجارہاہے کہ ریاستی درجہ کی بحالی کی ضرورت جہاں کشمیر کیلئے اہم ہے وہیں جموں کیلئے اُس سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہے لہٰذا جموں کے بعض سیاسی حلقوں کی موجودہ سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر خاموشی یا کچھ اور راستے اختیار کرنے کی کوششوں کو جموںوکشمیر کے وسیع تر مفادات کیلئے سم قاتل سمجھا جارہاہے۔
اسی دوران جبکہ مختلف حلقوں کی جانب سے ریاستی درجہ کی بحالی کے تعلق سے مطالبات، سوالات، خدشات اور مفروضات کو زبان دیئے جانے کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے کسی میڈیا ہائوس کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آیا کہ نیشنل کانفرنس بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے میں شامل ہورہی ہے اور اس شمولیت کے صلہ میں ریاستی درجہ حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ نیشنل کانفرنس نے اس ’’ خبر‘‘‘ پر شدید اور سخت ترین الفاظ میں اپنے ردعمل میں تردید کی ہے اور خبر کے پیچھے ہاتھ سے نہ صرف تردید کرنے کا مطالبہ کیا ہے بلکہ معافی مانگنے کیلئے بھی کہا ہے۔ ترجمان نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ خبر کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا ہے۔ ترجمان نے میڈیا ہائوس کی اس خبر کو بے بُنیاد قرار دیا ہے اور مذکورہ جرنسلٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُس بی جے پی لیڈر کی شناخت ظاہر کرے جو بقول اُس کے اس معاملے پر عمر عبداللہ سے ملاقی ہوا ہے ۔
دعویٰ اگر گمراہ کن اور بے بُنیاد ہے تو ظاہر ہے فطرتی تقاضوں کے طور اس پر شدید ردعمل واجبی ہے جس کسی میڈیا ہاوس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس دعویٰ کی کوئی ٹھوس بُنیاد یا شہادت موجود ہے یا یونہی سنسنی پھیلانے اور اپنی ٹی آر پی میں اضافہ کی غرض سے ہوا میں تیر چلا دیا ہے۔ اس ساخت ، سوچ اور ذہنیت کے صحافیوں کی ہندوستان میں اور نہ کشمیر میںکوئی کمی ہے۔ کیونکہ ایسے بہت سارے صحافت کے نام پر اپنی اپنی پسند اورمن صلوا کے خوگر مختلف پارٹیوں کی گودمیں پرورش پارہے ہیں اور خود کو ’معتبر اور مستند صحافیوں‘ کے طور شناخت بھی رکھتے ہیں۔
قطع نظر اس سب کے فرض کریں میڈیا ہائوس کی خبر یا دعویٰ کو گمراہ کن نہ تصور کیا جائے بلکہ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بُنیاد، مقصد یا حصول مقصد کارفرما ہو تو اُس پر شدید ردعمل کا بظاہر کوئی معقول جوازنہیں۔ وہ کون سی جموں وکشمیرنشین جماعت ہے جس نے ماضی، ماضی قریب یا حال میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ہاتھ نہ ملا یا ہو، شریک اقتدار نہ رہی ہو، یا ملکی سطح پرا تحاد کا حصہ نہ رہی ہو۔
نیشنل کانفرنس آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واجبی کی قیادت میں این ڈی اے کا حصہ رہی ہے، خود عمرعبداللہ اُس کا بینہ میں بطور وزیرمملکت کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ جموں میونسپلٹی میں نیشنل کانفرنس بی جے پی کے لیڈر کیوندر گپتا کی قیادت میں شریک اقتدار رہی ہے۔ کرگل لیہہ کونسل میں بھی نیشنل کانفرنس اور بی جے پی کا ساتھ رہا ہے ۔ مفتی محمدسعید اور ان کی بیٹی محبوبہ مفتی بی جے پی کے ساتھ شریک اقتدار رہی ہے جبکہ خود مفتی محمدسعید مرکز میںاُسوقت وزیرداخلہ تھے جب وی پی سنگھ کی قیادت میں جنتا پارٹی ( بعد میں بی جے بنی) برسراقتدار رہی۔ سجادغنی لون پی ڈی پی ؍بی جے پی مخلوط حکومت میں بی جے پی کے کوٹہ پر کابینہ درجے کے وزیر رہ چکے ہیں جبکہ وہ وزیراعظم نریندرمودی کو اپنا بڑا بھائی اور محبوبہ مفتی کو اپنی بہن گنا کرتے تھے۔ اپنی پارٹی کے بانی سید الطاف بخاری اس دوڑمیں کسی سے پیچھے نہیں تھے۔
اُس سیاسی منظرنامہ میںان سبھی پارٹیوں کی قیادت سے کیا یہ سوال کرنا کوئی گناہ یا جرم ہے کہ اگر کل تک بی جے پی ان کیلئے ’’اچھوت‘‘ نہیں تھی تو اب اُچھوت کیوں؟ بی جے پی کو اپنے مخصوص سیاسی نظریات اور مفادات کے ترازو میں رکھنے والے اس حقیقت کو تسلیم کیوں نہیں کرتے کہ ملک کی تقریباً ۳۵؍ فیصد رائے دہندگان نے اس پارٹی کو منڈیٹ عطاکیا ہے اور اس منڈیٹ کے بل پر وہ مرکز میں برسراقتدار ہے۔ مرکز میں برسراقتدار چاہئے کوئی بھی جماعت ہو، وہ کوئی بھی سیاسی نظریہ رکھتی ہوکوئی ریاستی حکومت اپنے معاملات ہوا سے باتیں کرکے طے نہیں کرسکتی ہے۔ مرکزی قیادت کے ساتھ معاملات طے کرنے کیلئے اس کے ساتھ رابط اور مشاورت جہاں ایک آئینی ذمہ داری اور لوازم ہے وہیں یہ فیڈرل طرزنظام کا لازم وملزوم ہے۔
پھر بھی نیشنل کانفرنس اگر ریاستی درجہ حاصل کرنے کی سمت میں یہ راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو خیال بُرا نہیں ، مطلب آم کھانے سے ہے پیڑ گننے سے نہیں۔ اگر بی جے پی کی مرکزی قیادت مرکز میں اپنے اقتدار کو اس راستے پر چل کر مزید استحکام عطاکرنے کی سوچ رہی ہے یا کوشش کررہی ہے تو اُس کی یہ سوچ یا کوشش اس کے اپنے سیاسی اور حکومتی اہداف کے تناظرمیں غلط نہیں۔ ویسے بھی حالیہ ایام میں وزیراعلیٰ کچھ ایک معاملات میںاپوزیشن خیمے کی سوچ سے کچھ باہر قدم رکھ کر ایسے اشارے دیتے رہے ہیں جن اشاروں کو مرکز کے مفادات یا حق یا حمایت کی اصطلاح میں لیاجارہاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔