نئی دہلی//
مرکزی وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے دفعہ ۳۷۰ پر کانگریس کی قیادت والی سابقہ حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پارٹی نے کشمیر کے بارے میں آئین کے تئیں اپنی ذمہ داری سے دستبرداری اختیار کرلی تھی کیونکہ اس عارضی شق کو ’اصل میں مستقل‘ بنا دیا گیا تھا کیونکہ کانگریس کو ’کام کرنے کی ہمت نہیں ہے‘۔
راجیہ سبھا میں’ہندوستان کے آئین کے۷۵ سال کے شاندار سفر‘پر اظہار خیال کرتے ہوئے پٹرولیم اور قدرتی گیس کے وزیر پوری نے اپنی تقریر میں کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس میں کشمیری پنڈتوں اور سکھ مخالف فسادات کا حوالہ بھی شامل تھا۔
دفعہ ۳۷۰ کا حوالہ دیتے ہوئے پوری نے کہا کہ آئین میں یہ واحد شق ہے جس کے مسودے کی نگرانی بابا صاحب امبیڈکر نے نہیں کی۔ جب دستور ساز اسمبلی نے دفعہ۳۷۰ منظور کی، جس کا نمبر۳۰۶؍اے تھا، تو امبیڈکر خاموش رہے۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ آئین کے اس آرٹیکل کو منسوخ کرنے کیلئے وزیر اعظم نریندر مودی کی’ناقابل فراموش ہمت اور عزم‘کی ضرورت تھی ، جس کا مقصد اگرچہ ’عارضی ہونا تھا‘، لیکن خوش نودی کی سیاست کے ذریعہ اسے عملی طور پر مستقل کردیا گیا تھا۔
پوری نے دعویٰ کیا کہ شدید مخالفت کے باوجود آئین میں ایک خصوصی دفعہ شامل کی گئی کیونکہ شیخ عبداللہ کے خودمختاری کے مطالبے کی حمایت ان کے’عزیز دوست‘پنڈت جواہر لال نہرو نے کی تھی۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ شیخ عبداللہ کو لکھے گئے خط میں امبیڈکر نے انہیں طویل مدتی نتائج کے بارے میں متنبہ کیا تھا اور انہوں نے لکھا تھا کہ آپ پنڈت نہرو کو غلط مشورہ دے رہے ہیں۔
شیخ عبداللہ کو لکھے گئے امبیڈکر کے خط کا حوالہ دیتے ہوئے پوری نے کہا ’’ میں آپ کی کوششوں کا حصہ نہیں بنوں گا۔کشمیر کو خصوصی درجہ دے کر آپ کشمیر کو ہندوستان کے مرکزی دھارے سے الگ تھلگ کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں صنعتی ترقی یا روزگار کے مواقع نہیں ہوں گے‘‘۔
پوری نے کہا کہ کانگریس نے کشمیر کے سلسلے میں آئین کے تئیں اپنی ذمہ داری سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے کہا کہ جو ایک عبوری شق ہونی چاہیے تھی وہ تقریبا ًً۷۰ سال تک مستقل حیثیت اختیار کرتی رہی کیونکہ کانگریس میں کام کرنے کی ہمت نہیں تھی۔
مرکزی وزیر نے آرٹیکل ۳۷۰ کو ہندوستان کی آئینی سیاست میں ایک بے قاعدگی، ایک انحراف اور ٹوٹ پھوٹ قرار دیا۔ یہ ہندوستان کے تصور کے خلاف تھا۔
جموں کشمیر کا حوالہ دیتے ہوئے پوری نے مزید کہا کہ ایک ایسی سرزمین جو رشی کشیپ سے پہلے ہندوستان کی تاریخ میں خصوصی اہمیت کی حامل تھی ، آزادی کے بعد ہندوستان کے لئے تقریباً اجنبی ہوگئی ، جبکہ اس کے باشندوں ، جن میں سے کچھ ویدک عہد سے تعلق رکھتے ہیں ، کو وہی بنیادی حقوق حاصل نہیں تھے جو باقی ہم وطنوں کو حاصل تھے۔ ان کے پاس کوئی حقوق نہیں تھے، کوئی تعلیم نہیں تھی اور نہ ہی کوئی نوکری تھی۔
پوری نے کہا کہ جموں کشمیر کے نمائندے ہونے کا دعویٰ کرنے والے دلالوں کی صنعت نے پتھربازی اور بدعنوانی کے کلچر کو فروغ دیا۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ کشمیری پنڈتوں کو نسل کشی جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں بھاگنے پر مجبور کیا گیا جبکہ جو رہ گئے انہیں ان کے گھروں سے گھسیٹ کر بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔
پوری نے کہا’’آئین کے سرکشا کووچ ہونے کے بارے میں بہت سی باتیں ہو رہی ہیں۔ کیا یہ کشمیری پنڈت اقلیت نہیں تھے؟اس وقت یہ آئینی ڈھال کہاں تھی؟ انہوں نے سوال کیا کہ جب کشمیری پنڈتوں کو تقریباً ۵۰۰۰ سال سے ان کے وطن سے باہر نکالا گیا تو نیائے کہاں تھا‘‘؟
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ آج کانگریس پارٹی خود کو اقلیتوں کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کر رہی ہے، پوری نے کہا’’کیا وہ ہم سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ یہ بھول جائیں کہ انہوں نے ۱۹۷۶ کے دوران پرانی دہلی میں مسلم مردوں کی جبری نس بندی کے لیے کیمپ چلائے تھے‘‘؟
پوری نے الزام عائد کیا کہ کانگریس نے فرقہ وارانہ فسادات کروائے جس میں کئی مسلم بھائیوں اور بہنوں نے اپنی جانیں گنوائیں اور سوال کیا کہ کیا ان غریب لوگوں کے پاس کوئی آئینی حقوق نہیں ہیں۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ کانگریس نے شاہ بانو معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو اس لئے بدل دیا کیونکہ انہیں لگا کہ یہ مسلم کمیونٹی کے سخت گیر عناصر کو پسند آ سکتا ہے۔
پوری نے کہا کہ کانگریس کے لئے اقلیتوں کی فلاح و بہبود صرف خوش نودی کا نعرہ رہا ہے اور دوسری طرف مودی حکومت کیلئے یہ ہر شہری کی جامع ترقی کے بارے میں ہے۔
مرکزی نے کہا کہ اقلیتوں کو مرکزی حکومت کی مختلف اسکیموں سے بے حد فائدہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا’’جن لوگوں نے یہ تجویز دی تھی کہ آئین شہریوں کو ’سرکشا کوچ‘ فراہم کرتا ہے، میں ان سے پوچھوں گا کہ جب دہلی کی سڑکوں پر میری برادری کے۳ہزار افراد، بے گناہ سکھوں کو قتل کیا گیا تو حکومت نے کیا کیا۔‘‘ (ایجنسیاں)